مظفرآباد (پی آئی ڈی) چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا ہے کہ کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ مضبوط رشتہ ہے۔ آزادکشمیر میں سیاحت کے شعبہ میں وسیع پوٹینشل موجود ہے۔ ہمارے ملک جیسا خوبصورت خطہ دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانا ہو گا۔ محمد یعقوب نظامی کی کتاب ”دیکھ میرا کشمیر“ علم و ادب کے خزانوں میں سے ایک شاہکار ہے۔اس کتاب میں آزادی کی قدر اور پاکستان کے ساتھ رشتہ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا۔
آزادکشمیر ایک پرامن خطہ ہے جس کا کریڈیٹ افواج پاکستان کو بھی جاتا ہے۔ آزادکشمیر کی دھرتی کے بہترین ججز، جرنلز، سیاستدان، ڈپلومیٹس اور بیوروکریٹس پاکستان میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے ر وز یہاں پوسٹ گریجویٹ کالج برائے طلباء مظفرآباد میں محمد یعقوب نظامی کی کتاب ”دیکھ میرا کشمیر“ کی تقریب رونمائی سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مظفرآبادڈاکٹر عبدالکریم، صاحب کتاب محمدیعقوب نظامی، گورنمنٹ کالج راولاکوٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، سابق پرنسپل گورنمنٹ بوائز کالج بالسیری پروفیسر راجہ رحمت علی خان، اور پروفیسر طارق محمود اعوان نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ تقریب میں سیکرٹری سیاحت ڈاکٹر خالد محمود چوہان، ایڈووکیٹ جنرل خواجہ مقبول وار،الیاس ایوب، پروفیسرز اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب میں ادارہ کے طالب علم فیصل کبیر نے کلام اقبال پیش کیا جسے حاضرین نے بے حد سراہا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا کہ آج میرے سمیت تمام حاضرین جس جس منصب پر فائز ہیں ان سب کے پیچھے کسی نہ کسی استاد کا ہاتھ ہے۔ اساتذہ کا احترام کامیابی کی واحد سیڑھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یعقوب نظامی نے اپنی کتاب میں آزادکشمیر کے سیاحتی مقامات، ثقافت اور تاریخ کاتفصیل کے ساتھ ذکر کیاہے۔ آزادکشمیر میں سیاحت کے شعبہ میں ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ سیاحتی مقامات پر سہولیات فراہم کی جائیں اور لوگوں کو آگاہی بھی دی جائے۔ جنگلات کے بے جا کٹاؤ کو روکا جائے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ریاست کی بہتری کے لیے جو ممکن ہو سکے کریں۔ انہوں نے کہا کہ بطور مہمان خصوصی اس تقریب میں شرکت میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔اس سفرنامہ میں کشمیر کے قدرتی نظاروں،کوہساروں،برف پو ش پہاڑوں، باغوں، مرغزاروں، آبشاروں، جھیلوں اور جھرنوں کی جتنے خوبصورت انداز میں منظر کشی کی گئی ہے وہ دل کو چھوتی ہے۔ اس کتاب میں کشمیریوں کے تہذیب و تمدن، رہن سہن، طرز معاشرت، اخلاق و آداب، جذبہ آزادی، کشمیر اور اس کے باسیوں کی خوبصورتی کو جس شاندار انداز میں بیان کیا گیا ہے اس کے لیے میرے پاس ذخیرہ الفاظ نہیں ہے۔ مصنف کے بارے میں بس اتنا کہوں گا کہ کشمیری زبان، ادب، ذوق جمال، سیاحت اور تاریخ پر اس قدر کمند رکھنے والی شخصیت دراصل خطہ کشمیر کا اصل سرمایہ ہیں۔یعقوب نظامی نے یورپ میں آباد ہونے کے باوجود مادر وطن سے اس قدر والہانہ محبت اور جذبہ حب الوطنی سے سرشارہیں۔ انہوں نے تقریبا آدھی دنیا کا سفر کر لیا ہے اور جس حسین پیرائے میں انہوں نے مختلف ممالک اور ان میں آباد قوموں کے بارے میں اپنے مشاہدات کو تحریر کیا ہے اس پر انہیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ میرا انگلستان، مصر کا بازار، مقدس سر زمین، پاکستان سے انگلستان تک، پیغمبروں کی سرزمین، اندلس، یورپ یورپ ہے۔موجود ہ صدی کی بات ایسی کتب ہیں جو بار بار پڑھنے کو جی کر تاہے۔انہوں نے یورپ سے لے کر افریقہ تک اور پھر پاکستان سے لے کر خلیج کے ممالک اور پھر کشمیر کا سفر کیا اور مستقبل کے طلبا کے لیے نادر معلومات پلر مشتمل سفر نامے لکھ دیئے جو رہتی دنیا تک طلبا کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہیں گے۔ان کا اسلوب بیاں دل کو موہ لینے ولاا ہوتا ہے۔ میں نے پہلی بار جب ان کا سفرنامہ پڑھا تو مجھے لگا کہ میں خود بھی اس سفر میں موجود ہون اور پھر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان کی تمام تصانیف کو حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا۔ان کے سفر ناموں کو ایک بار پڑھنے سے قاری کے دل کی پیاس نہیں بجھتی اور بار بار پڑھنے کا دل کرتا ہے۔ ان کے انداز بیاں مسحور کن اور قاری کا اپنی جانب کھینچتا چلا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یعقوب نظامی کے سفر نامے تفریح کا ساتھ ساتھ علم وادب کا خزینہ بھی ہیں۔ اس سفر نامہ میں پوری ریاست جموں وکشمیر بالخصوص پونچھ کے عوام کی جانب سے اسلام او رتحریک آزادی کشمیر کے لیے ان کی لازوال قربانیوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے ان کی جرات اور بہادری پر انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے بہت سے علاقوں میں تحریک آزادی کشمیر کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہیدوں کے بارے میں بھی تحریر کیا ہے۔ خطہ کشمیر کے ہر گاؤں اور قصبے کی تاریخی اہمیت اور اس کے نام کی وجہ تسمیہ اور اس میں مقیم خاندانوں کے بارے میں اس قدر قیمتی معلومات زیب قرطاس کیں جو پہلے کسی سفر نامے میں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔صاحب کتاب ایک درد دل رکھنے ولاے کشمیری ہیں جن کے اندر اپنے وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ریاست آزادجموں وکشمیر کے اکثر علاقوں کو سیاحت کے لیے منتخب کیا بلکہ اپنے سفرنامے میں متواتر ایک نظر حد متارکہ کے اس پار بھارتی زیر قبضہ ریاست جموں وکشمیر کے علاقوں پر بھی رکھی۔ انہوں نے خاص انداز میں کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کے متعلق بہت کچھ تحریر کیا۔ راولاکوٹ میں بنجوسہ جھیل کے حوالہ سے مختلف تجاویز دیں۔ انہوں نے ایک باٹنی گارڈن اور کشمیر ی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرنے والا ماڈل ویلج بنانے کی سفارشات اور قابل عمل تجاویز دی ہیں جو اس ریاست میں سیاحت کے فروغ اور باہر سے آنے والے سیاحوں کے لیے رغبت کا باعث بن سکتی ہیں۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں