شہری حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کیلئے آزاد اور خود مختار عدلیہ کا وجود لازمی تقاضا ہے، سپریم کورٹ آزاد کشمیر میں نئے عدالتی سال کی تقریب سے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم کا خطاب

مظفرآباد (پی آئی ڈی) نئے عدالتی سال 2023-24 کی تقریب سے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کا خطاب۔نئے عدالتی سال کی تقریب میں جسٹس خواجہ محمد نسیم سینئر جج سپریم کورٹ، جسٹس رضا علی خان جج سپریم کورٹ، خواجہ محمد مقبول وار ایڈووکیٹ جنرل، راجہ طارق جاویدچئیرمینسروس ٹربیونل، شیخ راشد مجیدچئیرمین اپیلیٹ ٹربیونل ان لینڈ ریونیو، راجہ راشد نسیم چئیرمین انوائرنمنٹل ٹربیونل، خالد یوسف چوہدریکسٹوڈین متروکہ املاک،، راجہ محمد ندیم ایڈووکیٹ وائس چئیرمین بار کونسل، زبیر راجہ ایڈووکیٹ صدر سپریم کورٹ بار، حامد خان ایڈووکیٹ صدر ھائی کورٹ بار، راجہ آفتاب احمد خان ایڈووکیٹ صدرسنٹرل بار کامران طارق ایڈووکیٹ صدر ڈسٹرکٹ بار میرپور، سینئر وکلائکی کثیر تعداد کے علاوہ محترمہ نبیلہ ایوب ایڈووکیٹ رکن قانون ساز اسمبلی، سیکرٹری محکمہ اطلاعات اور ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ قانون نے شرکت کی۔

افتتاحی خطاب میں ایڈووکیٹ جنرل آزاد جموں و کشمیر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججز صاحبان کی جانب سے مفاد عامہ کے مقدمہ میں احکامات اور ہدایات صادر کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل آزاد جموں و کشمیر نے تمام وکلاء اور شرکائے تقریب کو خوش آمدید کہتے ہوئے نئے جوش اور ولولے کے ساتھ فراہمی انصاف کے لیئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کی تلقین کی۔ انھوں نے کہا کہ محدود وسائل کے با وجود ہماری عدلیہ نے تاریخ ساز فیصلے صاد رکئے ہیں جس سے عوام میں اطیمنان کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔۔ سپریم کورٹ بار کے صادرزبیر راجہ ایڈووکیٹ نے بھی سپریم کورٹ کے اہم فیصلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو سراہا۔ وائس چئیرمین بار کونسل راجہ محمد ندیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزاد کشمیر کا عدالتی نظام انتہائی اعلیٰ ہے۔ سپریم کورٹ میں پرانے مقدمات پنڈنگ نھیں ہیں جو ہم سب کے لئے قابل فخر ہے۔ انھوں نے بلڈنگ کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نئی تعمیر ہونے والی عدالتی عمارتوں میں عوام کے لئے واش روم اور بیٹھنے کے سہولیات کے ساتھ ساتھ وکلا کے لئے کیفے ٹیریا اور بیٹھنے کی جگہ کو لازمی طور پر زیر غور لایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ بار کونسل نے ہمیشہ سے آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کی ہے۔۔سپریم کورٹ کے فیصلے قابل ستائش ہیں۔ آخر میں چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جناب جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے خطاب فرمایا جس کی جھلکیاں بذیل ہیں:-
• 29ستمبر 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ عدالتی میں 3214 نئے مقدمات دائر ہوئے ھیں جن میں سے 2933 کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
• دوران عدالتی سال نئے دائر ہونے والے مقدمات اور فیصلہ ہونے والے مقدمات کی تعداد کے قریب تر ہے۔
• مقدمات کی یکسوئی اور فوری فراہمی انصاف ٹیم ورک کا نتیجہ ہے اور اس کا سہرا معزز ججز صاحبان کے سر ہے جنھوں نے اپنی اعلیٰ بصیرت، فہم و فراست اور دانش سے فراہمی انصاف کے لئے اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئیمیرے ہمراہ ریکارڈ فیصلے کئے۔
• سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں تعطیلات کے دوران بھی معزز ججز صاحبان نے مقدمات کی سماعت جاری رکھی جس پر میں ان کا دلی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔۔
• اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے سال بھر میں عدالتی عملہ کے حوالہ سے کسی بھی قسم کی بد معاملگی، نااہلی، بددیانتی یا عام لوگوں سے کسی قسم کی بد اخلاقی کی کوئی شکایت نہیں پائی گئی ہے۔
• سپریم کورٹ کے عملہ کے کردار کے حوالہ سے وکلاء اور عوام الناس کا اظہار اطیمنان عملہ کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا واضح ثبوت ہے۔ توقع رکھتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی اسی منفرد انداز و کردارکو نہ صرف برقرار رکھیں گیبلکہ اس میں مزید بہتری لا کر باقی تمام ریاستی اداروں کے لئے قابل تقلید مثال قائم کریں گے۔۔
• کسی بھی ریاست میں تمام انتظامی مشینری صرف عوامی خدمت کے لئے تعینات ہوتی ہے۔ عدلیہ ہو یا انتظامیہ سب کا اولین فرض اور ذمہ داری عوام کے مسائل کا حل اور ان کی دہلیز تک انصاف بہم پہنچانا اورایک فلاحی ریاست اور معاشرہ کا قیام ہے۔ انصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام کے لیئے تمام ریاستی اداروں اور افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ جمہوری اقدار کا تقاضا ہے کہ ریاست میں بلا تخصیص فراہمی انصاف، معاشی مساوات، صحت، تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔ریاستی شہریوں کے بینادی حقوق کا تحفظ اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا تدارک کرنے کے لیے فیصلے اور ہدایات صادر کرنا عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے اور سرکاری عاملین اور انتظامیہ کا کام ان فیصلوں پر عمل درآمد کرناہوتا ہے لیکن شومئی قسمت فیصلوں پر عمل درآمد میں لیت و لعل اور تاخیری حربوں سے کام لیا جاتا ہے جس سے فراہمی انصاف کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ھونا تو یہ چاہیے کہ سرکاری محکموں اور دفاتر سے عوام کو فوری اور مؤثر انصاف کی فراہمی یقینی ہو۔ جائیداد کی ملکیت کا معاملہ ہو یا پھر ملازمت کا حصول، تنخواہ کا معاملہ ہو یا تبادلہ اور ترقی، کوئی معاہدہ ھو یا کاروباری لین یا کوئی بھی دیگر مسئلہ، تمام معاملات اور مسائل کے حل کے لئے آئین کے تحت ریاستی ادارے قائم ہیں اور اگر متعلقہ ادارے تحت قانون، سفارش، رشوت اور دباؤ سے آزاد ھوکر قانون اور آئین کے مطابق شہریوں کی داد رسی کریں تو ایسی صورت میں انھیں عدالتوں سے رجوع کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے نا انصافی کے خلاف شہریوں کو عدالتوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جس سے ان کا کثیر سرمایہ خرچ ھونے کے ساتھ ساتھ ان کا قیمتی وقت بھی ضائع ہو جاتا ہے۔۔آئین کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات تمام ریاستی اداروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالا تر نھیں ہے خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ اگر ریاستی اداروں کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نھیں کیا جاتا تو ایسی صورت میں آئین میں عدلیہ کی آزادی کے تصور کی نفی ہوتی ہے۔ شہری حقوق اور آزادیوں کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے لئے ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ کا وجود لازمی تقاضا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ تمام ریاستی ادارے عدالتی فیصلوں اور ہدایات پر من و عن عمل درآمدکو یقینی بناتے ہوئے آئینی تقاضے پورے کریں گے علاوہ ازیں تمام ریاستی اداروں میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پرتقرریاں اور تعیناتیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
• عدالت ہذا نے مقدمات کو یکسو کرتے ہوئے جہاں پر حالات و واقعات اورقانونی تقاضوں کے مطابق فراہمی نظام عدل میں بہتری اور تیزی لانے کے لیے کسی قانون میں تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت محسوس کی یا کہیں قانون کی خلاف ورزی اور سینہ زوری کی بناء پر عدالتی فیصلوں اور احکامات کو نظر انداز کرنے کا تاثر دیکھا تو عدالت نے ان پہلوؤں کے حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کیا اور متعلقہ اداروں اور افراد کو ہدایات جاری کرتے ہوئے تعمیلی رپورٹ طلب کی جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہو گی تا ہم کچھ مقدمات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ گزشتہ عدالتی سال میں اہلیان ہجیرہ کی جانب سے دائر مقدمہ میں آزاد جموں و کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کرواتے ہوئے تیس سال سے زائد عرصہ کے بعد آزاد جموں و کشمیر میں آزادانہ، منصفانہ اور پر امن بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا اس طرح بنیادی حکومتوں میں عوامی نمائندگی قائم ہونے پر عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو اجس سے مستقبل قریب میں ایک عام شہری کو بھی ریاستی معاملات میں فیصلہ سازی کا موقع میسر آئے گا اور تعمیر و ترقی میں ان کی رائے کا عمل دخل ممکن ہو سکے گا۔۔ حکومت کو چاھئے کہ بلدیاتی نمائندوں کو دیہی ترقی اور تعمیر کے لئے اختیار دینے کے لئے قانون سازی کریں اور ان کو لازمی اختیارات دیئے جائیں تاکہ عوامی نمائندے عوام کی بنیادی ضروریات اور منصوبہ جات کے لئے عملہ طور پر کام کر سکیں۔۔
• شاہد زمان کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے آزاد جموں و کشمیر میں ناقص اشیائے خوردنی کے گھناؤنے کاروبار کو روکنے کے لئے آئینی کردار ادا کرتے ہوئے پوری ریاست جموں و کشمیر میں متعلقہ ریاستی اداروں کی مدد سے ملاوٹ شدہ دودھ اور دیگر تمام اشیائے خوردونوش کی چیکنگ کے لئے متعدد بار احکامات دیئے اور ہدایات جاری کیں جن پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں اور انتظامیہ کی جانب سے بازاروں اور مارکیٹوں میں اشیائے خوردونوش کی چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر میں ناقص اور مضر صحت دودھ سپلائی کرنے والے متعدد مراکز کو سپریم کورٹ کے حکم پر متعلقہ اداروں نے سیل کر دیا ہے جبکہ میونسپل کارپوریشن اور محکمہ امور حیوانات کے زیر انتظام دودھ ٹیسٹ کرنے کی لیبارٹریاں بھی قائم ہو چکی ہیں۔ دارالحکومت میں داخل ہونے والی ملاوٹ شدہ مضر صحت دودھ کی بڑی مقدار بند ہو چکی ہے جبکہ دیگر تمام اشیائے خوردونوش کی کوالٹی چیک کرنے کے لئے ایک مکمل نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے فوڈ اتھارٹی کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ میری خواہش ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں قائم ہونے والی فوڈ اتھارٹی کے لئے پنجاب میں قائم فوڈ اتھارٹی کے خدوخال کو سامنے رکھتے ہوئے بالکل اسی طرح کا نظام وضع کیا جائے۔ سپریم کورٹ آزا دجموں و کشمیر نے اتفاق سٹون کریشرز کے مقدمہ میں نثارہ عباسی رکن قانون ساز اسمبلی کی درخواست پر کاررروائی کرتے ہوئے کامسر کے مقام پر چلنے والے کریش پلانٹوں سے پھیلنے والی آلودگی اور قریبی گاؤں دھنی مائی صاحبہ کے رہایشیوں کو لاحق سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے پیش نظر متعلقہ ریاستی اداروں سے رپورٹ طلب کی۔ محکمہ ماحولیات کے ڈائریکٹر کی جانب سے پیش کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق کامسر کے مقام پر چلنے والے تمام کریش پلانٹ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہے تھے جس سے ایک طرف قریبی گاؤں دھنی ماہی صاحبہ میں مقیم شہری سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے تھے جب کہ دوسری جانب شاہراہ نیلم کے ارد گرد ان فیکٹریوں کی وجہ سے دارالحکومت کے بالکل نزدیک واقع اس علاقہ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سیاحوں کی گزرگاہ بری طرح متاثر ہو رہی تھی اور ٹریفک کے حادثات روز کا معمول بن چکے تھے۔ بہت سے کریش پلانٹ بلا لائسنس اور محکمہ ماحولیات کے این او سی کے بغیر کام کر رہے تھے جو ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ زمین کے کٹاؤ کا باعث بن رہے تھے اور کچھ کریش پلانٹ سرکاری اراضیات اور تاریخی اور قومی اہمیت کے مقامات کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق آزاد جموں و کشمیر میں کریش سٹون پلانٹوں کی کل آمدن چھ ارب روپے کے لگ بھگ سالانہ ہے جس پر سالانہ ریونیو پچاس کروڑ روپے کے قریب بنتا تھا لیکن خزانہ سرکار میں صرف گیارہ لاکھ روپے جمع ہو رھے تھے۔۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ہوشربا انکشافات سامنے آئے جس سے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑے سوال پیدا ہوتے ہیں۔سپریم کورٹ نے متعلقہ سرکاری محکموں کو ہدایت کی کہ صرف وہ کریش پلانٹ چلائے جائیں جو قانونی تقاضے پورے کر رہے ہوں اور اس سلسلہ میں ماہانہ پراگریس رپورٹ بھی ارسال کی جائے۔ محکمہ کی سفارشات پرصرف ایسے 54 کریش پلانٹ جو قانونی تقاضے پورے کر رہے تھے ان کو کام کی اجازت دی گئی۔ محکمہ صنعت کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کردہ ماہانہ رپورٹ ہا کے مطابق گذسشتہ دس ماہ کے عرصہ میں دس کروڑ روپے کے لگ بھگ ٹیکس خزانہ سرکار میں جمع ہو چکا ہے۔۔ مقدمہ عنوانی محمد عظیم دت بنام راجہ خادم حسین وغیرہ پر عمل درآمد اور توہین عدالت کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے میرپور اور آزاد جموں و کشمیر کے دیگر شہروں میں ناجائز تجاوزات کے خاتمہ سے متعلق احکامات جاری کئے ھیں اور میرپور میں ماسٹر پلان کی خلاف ورزی اور شہر میں گرین بیلٹ اور پارکوں کے لئے مختص کردہ رقبہ جات کوغیر قانونی قابضین سے واگزار کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔پارکوں اور گرین بیلٹ کی واگزاری کے ساتھ ساتھ غیر قانونی قبضہ جات کے خاتمے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر من و عن عمل درآمد انصاف کا تقاضا ہے۔ یہ مقدمہ زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ نے غیر قانونی الاٹمنٹ کرنے والے سرکاری اہلکاران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ھے۔ میرپور میں ماسٹر پلان کی خلاف ورزی، تجاوزات اور گرین بیلٹ پر قبضہ کے غیر قانونی دھندے میں ترقیاتی ادارہ میرپور کے اہلکاران کا بنیادی کردار ہے اور ایسے بد عنوان سرکاری ملازمین کے خلاف سرجری کی ضرورت ہے۔ الیاس جنڈالوی وغیرہ بنام پرل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی وغیرہ میں سپریم کورٹ نے بنجوسہ میں جنگلات کی اربون روپے کی اراضی واگزار کرنے کا حکم دیا۔ اس رقبہ کو پرل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے ہاؤسنگ اتھارٹی کے لئے مختص کر رکھا تھا اور کچھ لوگوں کو اس رقبہ میں سے پلاٹ الاٹ ہو چکے تھے۔ ڈپٹی کمشنر پونچھ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے رپورٹ پیش کی ھے جس کے مطابق ایک لاکھ چار ہزار چار سو سینتالیس کنال رقبہ کا اندراج محکمہ جنگلات کے نام کر دیا گیا ہے اس طرح سرکار کے اربوں روپے کے جنگلات کا تحفظ ہوا۔
• چیف جسٹس ہائی کورٹ آزاد جموں و کشمیر کیماتحت عدلیہ کی کارگزاری میں پہلے سے زیادہ بہتری آئی ہے اور بلا شبہ اس کا سہرا ان ھی کے سر ہے۔ ھائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ججز صاحبان نے بھی گرمائی تعطیلات کے دوران مظفر آباد، میرپور، راولاکوٹ اور کوٹلی میں مقدمات کی سماعت جاری رکھی جو لائق تحسین ہے۔۔ الحمدللہ آزاد جموں و کشمیر میں خصوصی اختیار سماعت کے تمام ٹربیونل مکمل
الحمدللہ آزاد جموں و کشمیر میں خصوصی اختیار سماعت کے تمام ٹربیونل مکمل ہو چکے ہیں اور کام کر رہے ہیں اور اس وقت آزاد جموں و کشمیر میں نظام عدل سے وابستہ کوئی بھی عدالت یا خصوصی اختیار رکھنے والا ٹربیونل نان فنکشنل نھیں ہے۔
• گذشتہ عدالتی سال میں جوڈیشل کانفرنس منعقد کرنے پر میں چیف جسٹس صاحب ھائی کورٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے نظام فراہمی انصاف میں تاخیر اور اس کے تدارک کے لئے عملی اقدامات پر پوری عدلیہ کو سر جوڑ کر بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ میں ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے جوڈیشل کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی دعوت دی اور خطاب کا موقع دیا۔۔
• اکثر مقدمات میں سماعت کے دوران یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں ترقیاتی منصوبہ جات، ملازمین کے متعلق امور اور پبلک سروس کمیشن اور دیگر بہت سے حساس معاملات میں حکمِ امتناعی جاری کر کے برس ہا برس تک معاملات التواء میں پڑ جاتے ہیں اور غیر ضروری تاریخ گردانی کی جاتی ہے جس سے بہت دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں، ترقیاتی بجٹ ضائع ہو جاتا ہے، سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے کوشاں افراد حدِ عمر تجاوز کر جاتے ہیں اور کئی اداروں میں کام بھی تعطل کا شکار ہوجاتا ہے جبکہ قانون میں حکم امتناعی کے معاملہ کو یکسو کرنے کے لیے وقت متعین ہے۔ تمام عدالتوں کو چاہیئے کہ متعلقہ قانون میں مقدمہ کے فیصلہ کے لئے مقرر شدہ مدت کے اندر فیصلہ کیا جائے تاکہ قانون کے تقاضے پورے ہو سکیں۔۔ بیرون ملک مقیم شہریوں، زیر تعلیم طلباء، مالیات، قومی اہمیت کے تعمیراتی منصوبوں اور معذور افراد سے متعلق مقدمات میں ترجیحی بنیادوں پر فیصلے صادر کئے جائیں۔ مقدمات کی سماعت کے دوران بلاوجہ تاریخ گردانی سے گریز کیا جائے اور ناگزیر صورت میں تاریخ دینے کے لئے قانونی جواز کا درج کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح گواہان حاضر آمدہ کے بیانات قلمبند نہ ہونے کی وجہ سے بھی نہ صرف نظام فراہمی انصاف میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے بلکہ شہادت بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ تمام منصفان غیر ضروری تاریخ گردانی اور حاضر آمدہ گواہان کے بیانات قلمبند نہ کرنے اور غیر ضروری تاخیر کرنے کے طرزِ عمل سے اجتناب کریں۔ مظلوم افراد کی قانونی امداد کے لیے وکلاء پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے لیے مؤثر اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
• آزاد جموں و کشمیر میں بار کونسل، سپریم کورٹ بار، ھائی کورٹ بار اور تمام ضلعی اور تحصیل بار ایسوسی ایشنز نے جس طرح سے آئین اور قانون کی حکمرانی، میرٹ کی بالادستی، بنیادی حقوق کے تحفظ، بار اور بینچ کی مضبوطی اور عدلیہ کی آزادی کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے میں اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔ بار اور بینچ کے مضبوط رشتہ سے ہی ریاست میں ایک مضبوط و مستحکم عدلیہ، قانون اور آئین کی حکمرانی اور مؤثر نظام فراہمی انصاف کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ وکلاء ھمارے معاشرہ میں قانون کی حکمرانی کے لئے ایک مشعل کی حیثیت رکھتے ہیں اور میں نے ہمیشہ سے وکلاء کے مسائل کو ترجیح دی۔ حکومت وقت کو چاہیئے کہ وکلاء کے لئے تمام لازمی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کے لئے رہائشی کالونیوں کی تعمیر، ان کے بچوں کی فلاح و بہبود تعلیم اور صحت کی سہولیات کے لئے بھی قانون سازی کی جائے۔ علاوہ ازیں بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنز کو ریاستی ادارہ کی حیثیت دی جائے تاکہ یہ فورم اور زیادہ مضبوط ھو کر ریاستی عوام کے لئے فراہمی انصاف میں اپنا کردار مزید بہتر انداز میں ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔۔
• آزاد جموں و کشمیر میں احتساب کا نظام انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ ادارہ عملی طور پر غیر فعال ہے۔ کوئی بھی ایسا ادارہ نھیں جہاں پر بد عنوان اور بد دیانت افراد کے خلاف مؤثر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔۔عدالتیں بد عنوان افراد کے خلاف کارروائی کیاحکامات صادر کرتی ہیں لیکن ریاستی ادارے ان ہدایات کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لانے سے گریزاں ہیں۔ ایسا قانون موجود ہونا چاہیئے جس کے تحت بد عنوان اور بد دیانت افراد کا احتساب ممکن ھو سکے اور ایسے افراد کو کٹہڑے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جا سکے تاکہ آئندہ ریاستی اداروں سے بد عنوانی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری آزاد جموں وکشمیر ضروری اقدامات اٹھائیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس سلسلہ میں اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو حکومت نیا قانون بنائے یا سابقہ قانون میں ترامیم عمل میں لائی جائیں۔
• جدید دور کے ریاستی اداروں میں میڈیا ایک اہم ادارہ شمار ہوتاہے اور بلا شبہ ہمارے پاس ایک آزاد ا اور غیر جانبدار میڈیا موجود ہے۔ میرے نزدیک نظام فراہمی انصاف میں عدالتوں نے قانون شکن افراد کو گرفت میں لاتے ہوئے کمزور، مظلوم اور بے زبان لوگوں کو حقوق دلانے ہوتے ہیں۔ میڈیا کو چاہیئے کہ ان مظلوم اور بے زبان شہریوں کی آواز بن کر فراہمی انصاف میں اپنا کردار ادا کرے۔ میں مجموعی طور پرپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مثبت کردارکو سراہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میڈیا آئینی حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئیلوگوں کو حقوق و فرائض کے بارے میں شعور و آگہی بہم پہنچاتا رہے گا۔ سوشل میڈیا پربعض اوقات بدوں تصدیق عدالتوں کے ججز صاحبان اور زیر کار مقدمات کی نسبت معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں جس سے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ غلط معلومات کی بناء پر عوام میں عدلیہ کے بارے میں غلط تاثرپیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہیکہ سوشل میڈیا پر خبروں کی اشاعت سے متعلق پالیسی بنائی جائے اور غلط معلومات اور خبریں چلانے والے افراد اور چینلز کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
• ماہ ربیع الاؤل نصف تک پہنچ چکا ہے۔۔ الحمدللہ آزاد جموں و کشمیر کے عوام فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اتحاد و یگانگ اور یکجہتی کے ساتھ ایک پر امن فضا میں سانس لے رہے ہیں جس پر ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے شکر گزار ھیں۔ میں بطور چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں علمائے کرام کے مثبت اور انتہائی قابل تقلید کردار پر انھیں خراج تحسین پیش کیا جائے۔ پر امن ماحول کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے میں تمام مکاتیب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل اور علماء و مشائخ کونسل کا اہم ترین کردار رہا ہے۔مذہبی رواداری، ملی یکجہتی اور اتحاد امت کے لئے علمائے کرام کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے لیکن اس کے معزز اراکین کی مراعات بہت ہی کم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کی تنخواہ اور مراعات کا تعین پاکستان میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کو حاصل مراعات کی روشنی میں کیا جائے تا کہ تفاوت کو دور کیا جا سکے۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں