اسلام آباد (پی آئی ڈی) وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا ہے کہ آزادکشمیر کے لیے مفت بجلی نہیں مانگ رہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ جس ریٹ پر بجلی پیدا ہوتی ہے اسی ریٹ پر ہمیں مہیا کی جائے۔ ہمیں فی یونٹ 30 سے 40 روپے پڑتی ہے جبکہ پیداواری لاگت 3 سے 4 روپے ہے۔ آزادکشمیر کی ضرورت 350 سے 400 میگاواٹ تک ہے جبکہ آزادکشمیر میں اتنا پوٹینشل ہے کہ آنے والے دنوں میں 8 سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی آزاد کشمیر میں پیدا کی جاسکتی ہے ۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 175 اور 161 میں واضح ہے کہ جن علاقوں سے بجلی کی پیداوار ہوتی ہے پہلا حق اس صوبے یا علاقہ کا ہے۔ سینٹ کی کمیٹی برائے خزانہ میں واضح طور پر کہا کہ معاملہ کو حل کیا جائے۔نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا کہ فیول پر چلنے والے آئی پیپیز کا تعلق ہم سے نہیں بنتا لیکن ملک کی معیشت میں بہتری کے لیے ہم اپنا کردار ادا کرنے اور قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔واپڈا سے سسٹم لینے کا مقصد ٹرانسپرینسی کو قائم کرنا تھا لیکن واپڈا سے سسٹم لینے کے بعد اس سسٹم کی حالت مزید بگڑ گئی ہے۔ منگلا ڈیم 1967 میں بنا، ہم نے شہر قربان کیا، 2003 میں اپ ریزنگ کا منصوبہ بنایا گیا، ہم نے پھر قربانی دی۔ لیکن رائلٹی میں ہمارے ساتھ انصاف کا معیار درست نہیں ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ رائلٹی لینی ہے تو نیپرا ٹیرف مقرر کرے گا، پچھلے بقایاجات ادا کرنے پڑیں گے پھر رائلٹی مل سکتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ نیلم جہلم پراجیکٹ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل پیدا کررہا ہے مگر نیلم جہلم پر رائلٹی کا کوئی معاہدہ ہی موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی معاشی مشکلات کو سمجھتے ہیں، ہم قربانیاں دے رہے ہیں لیکن نئی نسل سوشل میڈیا کی نسل ہے وہ سوال اٹھاتے ہیں انھیں قائل کرنا مشکل ہے۔ انھوں نے کہاکہ میرا جینا مرنا اس ملک کے ساتھ ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بھی دل کی بات کی اور یہاں بھی اپنی جذبات سے آگاہ کررہا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ وفاقی سیکرٹری فنانس کا رویہ مناسب نہیں، سیکرٹری فنانس کو آزادکشمیر کے منتخب نمائندے سے بات کرتے ہوئے لحاظ کرنا چاہیے۔پاکستان کے ساتھ ابھی تک آئینی رشتہ قائم نہیں ہو لیکن ہماری منزل حق خودارادیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے زندگی میں اگر ووٹ آف رائٹ ملا تو میں پاکستان کو ہی چنوں گااوراگر میری زندگی میں ایساممکن نہ بھی ہوا تو میری روح اس قوم کے لیے دعا گو رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ہمیشہ مخلص رہے ہیں لیکن جب ہم حقوق کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف سے آئیں بائیں شائیں کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نگران وزیر خارجہ سے مل کر حوصلہ ہوا، ہم احساس کمتری کا شکار نہیں، ہمیں فیئر ٹریٹمنٹ نہیں دی جارہی، سینیٹ کی کمیٹی نے میرے موقف کی تائید کی اور کہا کہ سب سے پہلے آزادکشمیر کے معاملات حل ہونے چاہیں۔ کشمیر کونسل کے ملازمین کی تنخواہوں کے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر کونسل کے ملازمین کی تنخوائیں لینے کا جواز مہیا کریں۔ آزادکشمیر کے ٹیکس کا پیسہ کیا ایسے ملازمین کو دے سکتے ہیں جو آزادکشمیر کے لیے کام نہیں کررہے؟۔ وزیراعظم نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ کشمیر کونسل کے 280 مستقل اور 80 کنٹیجنٹ ملازمین رہتے وفاق میں ہیں اور تنخواہیں آزادکشمیر سے مانگتے ہیں۔ 13ویں ترمیم کے بعد یہ ملازمین انتظامی طور پر آزادکشمیر حکومت کے پاس ہونے چاہیں لیکن ان کا بظاہر دفتر تو کشمیر کونسل بلاک میں ہے لیکن اتنے ملازمین کی وہاں بیٹھنے کی کیپیسٹی بھی نہیں ہے۔ وزیراعظم نے ایسے گوسٹ ملازمین کے خلاف سخت پالیسی کا عندیا دیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ وفاق سے آنے والے بیوروکریسی کی پرفارمنس سے متفق ہیں۔ کراچی معائدہ کے تحت آنے والے وفاقی بیوروکریٹس انتظامی طور پر بہترین پرفارمنس دے رہے ہیں۔ ریاست کو ہم خود چلاتے ہیں ہمیشہ حقوق کی بات کی ہے، ہمیں نذرانداز کیا جاتاہے۔انہوں نے کہا کہ میرے نیشنلسٹ ہونے کا تاثردیا جاتا ہے، کشمیری ہوں، پاکستانیت میرے خون میں ہے لیکن کشمیر کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہوں گا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں