آزاد کشمیر حکومت کے پاس اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں مقامی اتھارٹی کے طور پر اختیارات ہونے چاہئیں، پاکستان بطور ریاست سیاسی و سفارتی سطح پر مدد، رہنمائی کرے، پاکستان لٹریچر فیسٹول سے سیاستدانوں، قانون دانوں کا خطاب

مظفرآباد (آئی اے اعوان) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے مظفر آباد کشمیر میں منعقدہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے آخری روز مقبوضہ کشمیر کی صورتحال 35-A اور 370 کے تناظر میں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہاکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھوں اور آزادی کی گاڑی کوئی دوسرا چلائے۔

سابق چیف جسٹس منظور الحسن گیلانی بولے کہ اقوام متحدہ نے تحریک آزادی کو تسلیم کیا آزاد کشمیر حکومت کو نہیں ۔ شرکاء نے 24 اکتوبر 1947 کو قائم کی گئی آزاد کشمیر حکومت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق لوکل اتھارٹی کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کردیا آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے 35-A اور 370 کے تناظرمیں منعقدہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سیاست دانوں ، ماہرین قانون اور دانشوروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے اورمقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو عالمی برادری تک پہنچانے کے لیے آزاد جموں و کشمیرکی حکومت کو 24اکتوبر 1947ءکے اعلانِ آزاد حکومت کے مطابق اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں مقامی اتھارٹی کے طور پر اختیارات ہونے چاہئیں تاکہ کشمیری آزادی کی تحریک میں سفارتی سطح پر اول دستے کا کردار ادا کرسکیں اور پاکستان بطور ریاست سیاسی و سفارتی سطح پر ان کی مدد اور رہنمائی کرے، سیشن میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان، سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی، اسپیکر آزاد کشمیر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر، سابق سینئر بیوروکریٹ و شاعر دانشور فواد حسن فواد، سابق سیکریٹری قانون ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان اور فرحت میر نے اظہارِ خیال کیا جبکہ معروف صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے، راجہ فاروق حیدر خان نے کہاکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھوں اور آزادی کی گاڑی کوئی دوسرا چلائے، ایسی گاڑی کو منزل تک پہنچنے میں مشکلات ہیں، لہٰذا آزاد حکومت کو ہمیں تسلیم کرکے فرنٹ لائن اور پاکستان سیاسی اور سفارتی سطح پر ہماری پشت پناہی کرے، پہلے مرحلے میں آزاد کشمیر کو او آئی سی کی ممبر شپ دی جائے، سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی نے کہاکہ کے ایچ خورشید کا نظریہ دراصل 24 اکتوبر آزاد حکومت کے اعلان کا اعلامیہ ہی تھا جس میں دونوں حکومتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ انقلابی حکومت کے ساتھ تعاون کریں، پانی بہت بہہ چکا اگر یہ تسلسل قائم رہتا تو اچھا ہوتا، اقوام متحدہ نے تحریک آزادی کو تسلیم کیا آزاد کشمیر حکومت کو نہیں۔ معاہدہ کراچی میں بھی بہت کچھ تھامگر ہمارے ہاں قیادت کوئی بھی بحال نہیں رکھ سکی، آزاد کشمیر کے پاس اختیارات تو ہیں مگر اس کے استعمال میں کچھ رکاوٹیں ہیں، یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہوگا۔چوہدری لطیف اکبر نے کہاکہ کشمیر پالیسی میں تسلسل ٹوٹنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں لہٰذا حکومت کوئی بھی ہو کشمیر پالیسی میں تسلسل باقی رہنا چاہیے، انہوں نے کہاکہ 370 ختم کرکے بھارت نے خود ڈوگرہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی جبکہ 35-A ہمارے لیے بہت اہم مسئلہ ہے، فواد حسن فواد نے کہاکہ پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ استصواب کے وقت کشمیریوں سے رائے لی جائے گی کہ وہ کیا چاہتے ہیں، انہوں نے کہاکہ ایسا کوئی استصواب رائے نہیں ہوسکتا جس میں لوگوں کے بنیادی حق کو شامل نہ کیا جائے، کشمیریوں کو رائے شماری کے وقت تین آپشن ہونے چاہئیں،بھارت ، پاکستان اور خود مختار۔ اس لیے کہ خود مختار کشمیر کوئی ایسا ڈراونا خواب نہیں جس سے ہم ڈر کر چھپ جائیں، پاکستان کے ایک وزیراعظم نے عوامی سطح پر یہ کہاکہ مودی جیت گیا تو مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا، مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ انتہائی ذمہ دار آدمی کس قدر بے خبر تھا کہ بھارتی جنتا پارٹی نے اپنے منشور میں شامل کررکھا تھا کہ کامیابی کے بعد 370 اور 35-A کو ختم کیا جائے گا، لیکن ہمیں اس کی خبر تک نہیں تھی،

انہوں نے کہاکہ اس وقت ہمارے فیصلہ سازوں اور سیاست دانوں نے مجرمانہ طور پر پہلو تہی کی اور خطرناک بات یہ ہوئی کہ لداخ کو انڈین حدود میں شامل کرلیاگیا لیکن ہمارے ذمہ دار حکمرانوں میں خوفناک طریقے سے اس کو نظر انداز کیے رکھا، آج بھی یہاں کی مقامی قیادت اور سیاست یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ چھوٹے موٹے اختیارات کا مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلہ کو وہیں سے شروع کرنا پڑے گا جہاں ہم نے اس کو چھوڑا تھا، 1950ءمیں بھارت بین الاقوامی سطح پر بہت کمزور سطح پر تھا 1970ءکے بعد وہ بھاری ہونے لگا اور 5 اگست 2019ءکو خوفناک قدم اٹھایاگیا، بھارتی حکومت اور ڈوگرہ کا معاہدہ دو حکومتوں کے درمیان تھا جس کی بھارت نے خلاف ورزی کی اور اس کا یہ اقدام بین الاقوامی سطح پر چیلنج کیا جاسکتا ہے، ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان نے کہاکہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق کوئی بھی ممبر ملک اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی لیکن شملہ اور لاہور معاہدہ کے بعد ہمارا مقدمہ کمزور ہوگیا اور اقوام متحدہ کی قراردادیں ثانوی پوزیشن میں چلی گئیں، پاکستان مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بنیاد بناکر اس مسئلے کو ازسرنو اٹھا سکتا ہے جبکہ آزاد کشمیر کی حکومت اقوام متحدہ کی ممبر نہ ہونے کے باوجود بین الاقوامی عدالت میں اس مقدمے کو اٹھا سکتی ہے، انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر کی حکومت کا کردار وقت گزرنے کے ساتھ تبدیل ہوچکا، لیکن میں تجویز دوں گا کہ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو اس مقدمے کو بین الاقوامی عدالت میں اٹھانا چاہیے، فرحت میر نے کہاکہ چارٹر میں ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں ان کے ممبر ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہونی چاہیے لیکن جس قدر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں اٹھایا جاسکتا ہے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں