اسلام آباد (پی آئی ڈی) وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوار الحق کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس جموں کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں موسٹ سینئر وزیر کرنل(ر) وقار نور،وزیر حکومت راجہ فیصل ممتاز راٹھور،چیف سیکرٹری ڈاکٹرمحمد عثمان چاچڑ،پرنسپل سیکرٹری،ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات فیاض علی عباسی،ایس ایم بی آر چوہدری لیاقت حسین،سیکرٹری مالیات عصمت اللہ شاہ،سیکرٹری سروسز و جنرل ایڈمنسٹریشن راجہ امجد پرویز،سیکرٹری قانون،پارلیمانی امورو انسانی حقوق ارشاد احمد قریشی،سیکرٹری اطلاعات انصر یعقوب سمیت اعلی حکام نے شرکت کی۔
آزادجموں و کشمیر کابینہ نے مجوزہ پندرہویں آئینی ترمیم ایکٹ 2023 کی منظوری دی۔کابینہ نے آزادجموں و کشمیر عبوری آئین 1974 کے آرٹیکل 14 میں وزراء کی مختص شدہ تعداد کو ختم کرنے کے مسودے کی منظوری دی،اب مسودہ قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں منظوری کیلیے پیش کیا جائے گا۔ کابینہ نے بہتر گورننس کیلیے کئی اقدامات کی منظوری بھی دی گئی۔کابینہ نے وزراء کی ایک کار کی پٹرول کی سیلنگ کی حد 500 لیٹر کرنے کی منظوری دی جو پہلے لامحدود تھی۔ کابینہ نے وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد سے جاری کئے جانے والے تمام احکامات کی بھی منظوری دی۔کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ترقیاتی فنڈز کی مد میں 12 ارب روپے دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔سرکاری مشینری کی ذمہ داری ہے کہ آنے والے فنڈز بروقت اور شفاف انداز میں خرچ کئے جائیں اور ایسے منصوبہ جات کو مکمل کیا جائے جن کا براہ راست فائدہ عوام کو ہو۔تین تین شفٹوں میں بھی کام کرنا پڑا تو کریں گے اور ترقیاتی فنڈز کا بروقت استعمال یقینی بنایا جائے گا۔وزیراعظم نے خود کو احتساب کیلیے پیش کر دیا اور قانون کی عملداری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔انہوں نے حکومت کی ترجیحات واضح کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی حاکمیت اور عملداری ہماری اولین ترجیح ہوگی۔کوئی معاشرہ یا ریاست قانون کی عملداری کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی لہذا سب کو خود کو قانون کے سامنے جوابدہ ٹہرانا ہو گا اور میں سب سے پہلے خود کو اس مقصد کیلیے پیش کرتا ہوں۔انہوں نے سرکاری اداروں اور محکموں کو ہدایت کی کہ وہ قانون اور قواعدو ضوابط پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں،بحثیت وزیراعظم میں خود کو احتساب کیلیے پیش کرتا ہوں ریاست کا کوئی بھی شہری میرے متعلق بحثیت وزیراعظم یا بحثیت عام شہری سوال کر سکتا ہے اور میں اسکے سامنے جوابدہ ہوں۔وزیراعظم نے واضح کیا کہ ایسا میکنزم وضح کیا جائے گا جس میں سوال پوچھنے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ہم اپنے تمام اقدامات کے حوالے سے جوابدہ ہیں اور لوگ ہمارے اقدامات کے بارے میں پوچھنے کا حق رکھتے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ تمام وزراء،چیف سیکرٹری،سیکرٹریزاور سربراہان محکمہ جات آفیسران و اہلکاران قانون کے پابند ہیں اور اپنے ہر عمل سے متعلق جوابدہ بھی ہیں،قانون کی تشریح قانون میں لکھے گئے الفاظ کے مطابق کی جائے گی کوئی بھی شخص اپنی من پسند تشریح نہیں کر سکتا اور ایسا کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی اس لئے تمام سرکاری آفیسران و سرکاری مشینری وضح شدہ قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔رائج الوقت قانون جو کتاب میں درج ہے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے البتہ اگر کسی قانون کو تبدیل کرنا مقصود ہو تو اسکے لئے تجاویز دی جائیں حکومت اس پر غور کرے گی۔احتساب کے موجودہ نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوے وزیراعظم نے کہا کہ احتساب بیورو اور محکمہ اینٹی کرپشن اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہیں،وزیراعظم نے احتساب کے شفاف نظام کو رائج کرنے اور دونوں اداروں کو فعال بنانے کیلیے موسٹ سینئر وزیر کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی،وزیر حکومت راجہ فیصل ممتاز راٹھور بھی کمیٹی کے رکن ہونگے۔یہ کمیٹی 48 گھنٹے کے اندر قابل عمل تجاویز و سفارشات پیش کرے گی جس پر مناسب قانون سازی کی جائے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ تمام سرکاری دفاتر میں کفایت شعاری پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے،آزادکشمیر برونائی دارالسلام نہیں ہے،یہ وسائل تحریک آزادی کشمیر اور موثر حکمرانی کیلیے استعمال میں لائے جائیں،وزیراعظم کیلیے بھی کم سے کم سیکیورٹی رکھی جائیگی،وزیراعظم،وزراء،چیف سیکرٹری،سیکرٹریز،و انتظامی آفیسران پبلک سرونٹ ہیں ان کا کسی قسم کا تاثر وائسرائے کا نہیں جانا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تمام محکمے وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی اور غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سرکاری آفیسران و اہلکاران کی عزت نفس کا مکمل احترام کیا جائے گا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ بھی دلجمعی سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔انہوں نے کہا کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے گا اختیارات کی مرکزیت کو کم کیا جائے گا،مالیاتی و انتظامی اختیارات جہاں جہاں منتقل کرنے کی ضرورت ہے اسپر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا،انہوں نے مثال دیتے ہوے کہا کہ ایمز ہسپتال میں جنریٹر میں ڈیزل ڈالنے کی فائل بھی وزیراعظم کے پاس آتی ہے اتنے ساریآفیسران کی موجودگی میں اسکا کوئی جواز نہیں ہے،فنڈز منتقل کرنے کی ذمہ داری سیکرٹریز خود اٹھائیں،وزیراعظم آفس کو ریاست کی پالیسی کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔انہوں نے ہدایت کی کہ ایک ہفتے کے اندر مظفرآباد سیکرٹریٹ میں کوئی آفس ایسا نہیں ہونا چاہیے جہاں بجلی کا میٹر نصب نہ ہو،پبلک سروس ڈیلیوری میں پہلے ہر ادارہ خود کو پیش کرے پھر عوام سے اس کر عملدرآمد کی توقع رکھے۔انہوں نے وزیراعظم سیکرٹریٹ اور محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں سات دن میں ایک گورننس سسٹم رائج کرنے کی ہدایت کی،اس حوالے سے وزیراعظم نے موسٹ سینئر وزیر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنانے کی ہدایت کی جو دیگر محکموں میں ایک گورننس نظام رائج کرنے کیلیے سفارشات مرتب کرے گی اس کمیٹی کے ممبران میں پرنسپل سیکرٹری اور ڈی جی آئی ٹی شامل ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ میں کسی غلط کام کا حصہ دار نہیں ہونگا جو سرکاری ملازم غلط کام کرے گیا وہ قانون کے مطابق سزا پائے گا۔انہوں نے ترقیاتی منصوبوں کی رویژن کے حوالے سے وزیر حکومت راجہ فیصل ممتاز راٹھور کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جسکے ممبران میں چیف سیکرٹری،ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات شامل ہیں،کمیٹی کو مختلف محکمہ جات کی طرف سے پیش ہونے والے ری وائز پی سی ون کے حوالے سے بنیادی سفارشات مرتب کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے،وزیراعظم نے سیکرٹریز رولز کو بھی واپس کرنے کی منظوری دی جبکہ سیکرٹریز کے مروجہ ترقیابی رولز کو بھی واپس کرنے کی منظوری دی گئی۔دیرپا ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے وزیراعظم نے موسٹ سینئر وزیر کی سربراہی میں ٹاسک فورس کے قیام کی منظوری دی جو ان مقاصد کے حصول کے لئے حکمت عملی و سفارشات مرتب کر کے حکومت کو پیش کرے گی۔ترقیاتی منصوبوں کے پی سی ون کی رویڑن کے حوالے سے وزیراعظم نے ہدایت کی کہ پی سی ون کی رویڑن ناگزیر حالات میں ہی کی جائے گی جو معقول جوازیت کے ساتھ کرنا ہو گی۔وزیراعظم نے صحت،سیاحت،تعلیم اور امور نوجوانان کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں