مظفرآباد (پی آئی ڈی) آزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسمبلی چوہدری انوارالحق کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2020سپیکر اسمبلی کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔کمیٹی میں سینئر موسٹ وزیر خواجہ فاروق احمد، اپوزیشن لیڈر چوہدری لطیف اکبر، وزیر زراعت و امور حیوانات سردار میر اکبر خان، وزیر موصلات و تعمیرات عامہ اظہر صادق،ممبراسمبلی میاں عبدا لوحید، ایم ایل اے کرنل (ر) وقار احمد نور، ایم ایل اے حسن ابراہیم اور نبیلہ ایوب شامل ہیں۔
اپوزیشن کی تحریک استحقاق پر رولنگ دیتے ہوئے سپیکر اسمبلی نے وزیر فزیکل پلاننگ و ہاؤسنگ کو ہدایت کی کہ وہجموں وکشمیر ہاوس اسلام آباد میں کمروں کی الاٹمنٹ کے حوالہ سے رپورٹ کل صبح تک اسمبلی میں جمع کروائیں۔ایوان میں مشیر اوقاف حافظ حامد رضا نے معروف عالم دین اقبال چشتی و دیگر فوت شدگان کے بلندی درجات کیلئے ایوان میں فاتحہ خوانی کروائی۔ اجلا س متعدد قراردادیں پیش کی گئیں جو اتفاق رائے سے منظور کر لی گئیں۔ قائد حزب اختلاف چوہدری لطیف اکبر و ایم ایل اے میاں عبدالوحیدکی جانب سے پیش کر دہ قرارداد میں کہا گیا کہمقبوضہ کشمیر میں جائیدادوں پر قبضے اور قابض فورسز کی تلاشی اور محاصرے کی کارروائیوں کے خلاف سینکڑوں خواتین، بچوں اور بزرگوں نے مظاہرہ اور دھرنا دیا۔ دھرنے میں ڈاکٹر فائی، غلام صفی، علی رضا سیّد نے خطاب کیا۔ یہ ایوان بھارتی فورسز کی جانب سے مظلوم کشمیریوں کی جائیدادوں اور زمینوں پر قبضے کی بھرپور مذمت کرتا ہے اور اقوامِ عالم سے مطالبہ کرتا ہے کہ بھارت جس نے پہلے کشمیریوں کی آزادی سلب کر رکھی ہے اب مختلف کالے قوانین کے ذریعے مظلوم کشمیریوں کو زمینوں سے زبردستی بے دخل کر رہا ہے، کو فوری طور پر روکا جائے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کشمیری عوام احتجاج پر مجبور ہونگے، جس سے مزید حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور بھارتی حکومت کا یہ منصوبہ ہے کہ اس طرح کی افراتفری کا ماحول پیدا کر کے کشمیری قیادت کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرے۔ اس لئے یہ ایوان بھارت کے اس منصوبے کی مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مقبوضہ وادی میں چوتھے جینوا کنونشن پر عملدرآمد کرے جس کا مطالبہ احتجاجی مظاہرے کے دوران کشمیری قیادت نے بھی کیا ہے۔
ایم ایل اے محترمہ نثاراں عباسی کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا کہقانون سازاسمبلی کے اس اجلاس کی رائے میں تحریک آزادی کشمیر کے دوران کشمیری خواتین کو طرح طرح کی اذیتوں سے دو چار ہونا پڑا۔ کبھی سہاگ لٹ جانے کی اذیت‘ کبھی بوڑھے والدین کی اذیت ناک اموات‘ کبھی پیارے بھائیوں کی بے گناہ گرفتاریوں کے بعد جعلی پولیس مقابلوں میں شہادتیں‘ کبھی معصوم بچوں کو تعلیمی اداروں سے مشکوک قرار دے کر اٹھایا جانا اور کبھی گینگ ریپ کا سامنا‘ ان متعدد مسائل کے ساتھ ساتھ کشمیری خواتین‘ جن کا ریاست کے آزاد حصہ کی خواتین بھی شکار ہیں‘وہ یہ ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں مقبوضہ ریاست میں عمر عبداللہ کے دور میں تحریک آزادی میں برسر پیکار حریت پسندوں کو ایک صلح کا جھانسہ دیتے ہوئے واپس مقبوضہ کشمیر آنے کی پیشکش کی گئی اور یہ کہا گیا کہ اگر کوئی حریت پسند پرامن ہو کر ریاست میں اپنی فیملی سمیت آباد ہونا چاہے تو حکومت اسے محفوظ پناہ دینے کو تیار ہے۔ اسی پیشکش کے نتیجہ میں بہت سے حریت پسند نوجوانوں نے جو کہ ریاست کے آزاد حصہ میں یہاں کی خواتین سے شادی کے بعد اپنی فیملی سمیت آباد تھے‘ اس پیشکش سے استفادہ کرتے ہوئے نیپال و دیگر راستوں سے مقبوضہ ریاست واپسی کی راہ لی۔ یہاں سے اْس پار جانے والے آزاد حصہ کی یہ خواتین جب وہاں پہنچیں تو مقبوضہ کشمیر انتظامیہ نے انہیں شہری حقوق دینے سے انکار کر دیا اور اس وقت یہ خواتین مجموعی طور پر350سے400کے لگ بھگ ہیں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔ کئی کے خاوندوفات پا چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ انہیں کوئی دستاویز جاری کرنے سے انکاری ہے۔ جس کے نتیجہ میں یہ خواتین مختلف ذہنی امراض کا شکار ہیں۔لہذا اس معزز ایوان کی رائے میں مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں بے بسی کا شکار ان خواتین کو قانونی دستاویزات مہیا کیئے جانے کا اہتمام کیا جائے تا کہ یہ خواتین دستاویزات ان کی بنیادپر آزاد کشمیر آ کر اپنے پیاروں سے ملاقات کر سکیں اور اپنے مستقبل کا تعین بھی کر سکیں۔دونوں پیش کردہ قراردادیں اتفاق رائے منظور کر لی گئیں۔ ۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں