امن و امان کے معاملہ میں آزاد جموں و کشمیر کی مثال دی جا سکتی ہے، چیف جسٹس آزاد کشمیر راجہ سعید اکرم کا شریعہ اکیڈمی کورس کے شرکاء سے خطاب

مظفرآباد (پی آئی ڈی) چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرام خان نے کہا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں عدالتی نظام 1974 کے آئین کے تحت چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک چیف جسٹس اور دو ججز صاحبان ہوتے ہیں جب کہ بینچ مکمل نہ ہونے کی صورت میں ایڈہاک جج کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے۔ الحمدللہ آزاد جموں و کشمیر میں جرائم کی شرح بہت کم ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ بہتر انتظامی کنٹرول اور عدالتی فیصلوں کی وجہ سے قانون کی حکمرانی نظر آتی ہے۔

امن و امان کے معاملہ میں آزاد جموں و کشمیر کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں جہاں ہمارے عدالتی فیصلوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے وہاں پر میڈیا، کلاء، اساتذہ، طلبا اور سول سوسائٹی کا بنیادی کردار رہا ہے جو لائق تحسین ہے۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر نے شریعہ اکیڈمی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے 64 ویں کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 64 ویں کورس کے وفد میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان سے شریعہ اکیڈمی میں کورس کے لئے آنے والے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، سینئر سول جج اور سول جج صاحبان کے علاوہ دفاعی اور سول اداروں میں تعینات لا ء آفیسران شامل تھے۔انہوں نے کہاکہ آزاد جموں و کشمیر تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے۔ دنیا کو مسئلہ کشمیر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان امن قائم ہو سکے اور کشمیریوں کو ان کا حق حق خود ارادیت جو کہ سلامتی کونسل نے تسلیم کر رکھا ہے مل سکے۔آزاد جموں و کشمیر میں پن بجلی کے بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ منگلا، نیلم جہلم، کوہالہ، گل پور، پترینڈ، کروٹ اور اس کے علاوہ دوسرے بہت سے پن بجلی کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ دیگر بہت سے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ آزاد کشمیر میں نیلم ویلی کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے علاقوں میں سیاحت کے مواقع موجود ہیں۔آزادکشمیر میں قیمتی پتھروں اور معدنیات کے ذخائر بھی موجودہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی ہزاروں سال پرانی ثقافتی اور خاندانی نظام کی تاریخ ہے۔ اس خطہ سے بڑے بڑی سیاستدان، علماء، جج، ماہرین قانون اور دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں لوگ گزرے ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر میں ہمارا عدالتی نظام کسی قدر پاکستان کی عدالتوں سے مختلف ہے۔یہاں پر قتل کے مقدمہ کی سماعت دو رکنی عدالت کرتی ہے جس میں ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ ڈسٹرکٹ قاضی بھی سماعت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر فوجداری مقدمات کی سماعت کے لئے بھی سول جج کے ساتھ تحصیل قاضی اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ ایڈیشنل ضلع قاضی کی عدالت قائم ہے۔انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ پر ہائی کورٹ کا انتظامی کنٹرول ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمات کی سماعت کے لئے شریعت اپیلٹ بینچ قائم ہیں۔ نڈر اور بیباک فیصلوں کی بناء پر ہماری عدلیہ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔1974 کے آئین کے تحت سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کو صرف اپیل اور نظرثانی کا اختیار حاصل ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کی طرح آزاد کشمیر میں سپریم کورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں 2022 کے دائر شدہ مقدمات کی سماعت چل رہی ہے۔2021 کے محض 39 مقدمات زیر التواہیں جب کہ 2020 سے قبل کی دائر شدہ کوئی بھی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت نھیں ہے۔ کرنٹ ڈسپوزل کو برقرار رکھنے میں میرے فاضل بھائی جج صاحبان جسٹس خواجہ محمد نسیم، جسٹس رضا علی خان اور جسٹس محمد یونس طاہر کا اہم کردار ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا عہدہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پاس ہوتا ہے۔ 2017 تک اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارہ کو آئینی حیثیت حاصل نھیں تھی لیکن قانون سازی کے ذریعے اب اس ادارہ کو آئینی حیثیت حاصل ہے اور چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کی سربراہی میں ہر تین ماہ میں کونسل کا اجلاس منعقد ہوتا ہے اور قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے عملی طور پر کام ہو رہا ہے۔ اس طرح چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کو چیئرمین لا کمیشن، چیئرمین جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ساتھ ساتھ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض منصبی انجام دینا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ایک ترقی یافتہ اور مضبوط پاکستان کی بنیادیں رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں شریعہ اکیڈمی کے شعبہ ٹریننگ کے سربراہ ڈاکٹر حبیب الرحمان نے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کا قیمتی وقت دینے پر شکریہ ادا کیا اور شیلڈ پیش کی جبکہ سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے بھی انھیں شیلڈ اور ڈائری دی گئی۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں