آزاد کشمیر میں بلدیاتی الیکشن، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا الیکشن فوج کی نگرانی میں کروانے کا مطالبہ

مظفرآباد (آئی اے اعوان) آزادکشمیر کی دوبڑی پارلیمانی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے آزادکشمیر میں 27 نومبر کو فوج کی نگرانی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف قانون ساز اسمبلی چوہدری لطیف اکبر اور سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے مرکزی ایوا ن صحافت مظفرآباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب چیف سیکرٹری کی جانب سے آزادکشمیر میں سیکورٹی کو بنیاد بنا کر ڈویژن اور ضلع کی سطح پر بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی وزرا بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کروانے کی سازش کررہے ہیں. الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کا اجلاس فوری طور پر طلب کرکے ابہام دور کرے

مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابات ایک ہی دن منعقد ہونے ہیں اور صاف وشفاف الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے،27 نومبر کو ہر صورت الیکشن ہونے چاہیں سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،وزیر داخلہ انتخابات کی راہ میں رکاوٹ نہیں آزادکشمیرحکومت کا طرز عمل ہے جو اپنی ذاری پوری نہیں کررہی، کابینہ کی غیر رسمی میٹنگ کی کوئی حیثیت ہوتی ہے نا ہی چیف سیکرٹری کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مرحلہ وار الیکشن کی تجویز دیں،انہو ں نے الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوے مختلف مرحلوں کی تجویز دی،صاف شفاف انتخابات کے لیے تمام لوازمات پورے کرنے کے وزیراعظم،چیف سیکرٹری،الیکشن کمیشن آئینی طورپر ذمہ دار ہیں۔سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے واضح کر چکی ہے کہ ذمہ داری کس کی ہے۔ انتخابات فوج کی نگرانی میں ایک ہی دن منعقد کروائے جائیں،مرحلہ وار الیکشن کی آڑ میں حکومت من مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے انتخابی عمل سے بائیکاٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وسائل خرچ کیے ہیں مہم چلائی ہے،پیسہ اور وقت کا استعمال ہوا گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل انتخابی مہم ہے روزانہ نت نئے شوشے چھوڑے جارہے ہیں کہ ملتوی ہورہے ہیں یہ حکومتی ہتھکنڈے ہیں، امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانا الیکشن کمیشن کا کام ہے حکومت کے پاس نا کوئی منصوبہ بندی ہے نا ہی وہ اس پر توجہ دے رہی ہے جو حالات ہیں ا ن میں شدید تصادم کا خطرہ ہے الیکشن کمیشن کے کردار پر شدید تحفظات ہیں انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہورہے ہیں مگر سیاسی جماعتیں مشاورتی عمل سے ہی باہر ہیں ،لوگوں میں اس وقت جوش وخروش پایا جارہا ہے آمدہ الیکشن جو کہ جماعتی بنیادوں پر ہورہے ہیں اس میں لوگوں کی دلچسپی زیادہ ہے وزیراعظم، چیف سیکرٹری وفاقی حکومت سے سیکورٹی کی صورتحال پر بات کرنے کے بجائے یہاں بیٹھ کر صرف بیانات دینے تک محدود ہیں حکومتوں کے درمیان بات چیت کا ایک طریقہ کار طے ہے مگر اس پر عملدرآمد کرنا حکومت کا کام ہے وہ مرکزی ایوان صحافت میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے اس موقع پر ممبران اسمبلی سردار جاوید ایوب،سید باذل نقوی،سابق وزیر سید شوکت علی شاہ سابق امیدواران اسمبلی شوکت جاوید میر،سردار مبارک حیدر،پرویز مغل و دیگر بھی موجود تھے،راجہ فاروق حیدر خان نے دعویٰ کیا کہ وزراء کی ایک بڑی تعداد الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنا چاہ رہی ہے اور ہمیں کہا جارہا ہے کہ آپ الیکشن کے التواء کا کوئی راستہ نکالیں،میرے پاس بھی چند وزرا آے اور مجھے کہا کہ ان انتخابات سے جان چھڑائیں،بلدیاتی انتخابات شراکت اقتدار کے لیے ہیں بہت عرصے بعد ہورے ہیں اس لیے بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے اب یہ ہر صورت ہونے چاہیں چوہدری لطیف اکبر اور راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ حکومت کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ ان انتخابات کے انعقاد کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بروقت منعقد کرواتی انتخابات کے انعقاد کی تاریخیں بھی حکومت کی مشاورت سے طے ہوتی ہیں جو حالات نظرآرہے ہیں ان میں خون خرابہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے تینتیس ہزار نفری حکومت آزادکشمیر کے پاس نہیں اور حکومت پاکستان دینے کی پوزیشن میں نہیں تو بھی ان معاملات کا حل نکالا جاسکتا ہے اس کے لیے فورمز ہیں ادارے ہیں شخصیات ہیں اور سب سے بڑھ کر سیاسی جماعتیں ہیں جن سے مشاورت کی جاسکتی ہے مگر یکطرفہ کاروائی چلائی جارہی ہے سیاسی جماعتوں کو مشاورتی عمل سے باہر رکھا جارہا ہے حکومت اسی لیے یہ سب کچھ کررہی ہے کہ لوگوں تیار نا ہوں جان بوجھ کر روز نت نئے شوشے چھوڑے جارہے ہیں مشاورت سے پولنگ کی تاریخ تبدیل بھی ہوسکتی ہے مگر حکومت صرف اور صرف اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہ رہی ہے تاکہ مرحلہ وار انتخابات ہوں اور حکومتی مشنری ہر جگہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوے من مرضی کے نتائج حاصل کرے اپوزیشن رہنماوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت اختیارات حاصل ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ ان اختیارات کو کوئی اور استعمال کرے حکومت پاکستان نے پی ٹی آئی کی وجہ سے فورسز دینے سے معذرت کی اگر دھرنا نا ہوتا تو انتخابات کے انعقاد میں کوئی مسلہ نہیں ہوتا پاپوزیشن نے حلقہ بندیوں پر تحفظات کے باوجود عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا الیکشن کمیشن نے اس وقت تک سیکورٹی اور دیگر مسائل پر سیاسی پارٹیوں سے کوئی بات ہی نہیں کی الیکشن کمیشن فوری طور پر سیاسی پارٹیوں کی میٹنگ بلا کر صاف وشفاف الیکشن کی ذمہ داری کو پورا کرئے انتخابات ایک ہی وقت میں اگر ممکن نہیں تو پھرمتبادل آپشن بھی استمال کیا جاسکتا ہے مشاورت سے پولنگ کی تاریخ آگے پیچھے یا ایک دو ماہ کا وقفہ بھی ہو سکتا ہے مگر حکومت پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں نظام اور خطے کی پرامن فضا کو داو پر لگا رہی ہے جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہین ہم کسی صورت بھی حکومت کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے انتخابات میں جوش و خروش یہ واضح کررہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کررہی ہیں جس کو دیکھتے ہوے حکومت منفی ہتھکنڈے جن میں مرحلہ وار انتخابات وغیر ہ استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں