مظفرآباد (آئی اے اعوان) سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے متفقہ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا ہم اس وقت بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے میں پھنس چکے ہیں۔
ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن آزاد جموں وکشمیر کے مرکزی دفتر میں تنظیم کے سینئر نائب صدر اور سینئر صحافی امیر الدین مغل کے بیرون ملک دورہ پر روانگی سے متعلق منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا انکا کہنا تھا کہ حق خود ارادیت اور کشمیریوں کی رائے کو سپریم رکھتے ہوئے کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا ہوگا جو ہمیں منزل تک لے کر جائے حکومت پاکستان اور پاک فوج ہمارے دفاع کیلئے آزادکشمیر میں موجود ہیں جبکہ دوسری جانب بھارتی فوج قابض کی صورت میں موجود ہیں ہمیں بھارت اور پاکستان کی افواج میں فرق رکھنا چاہیئے پاکستان کی موجودہ سیاسی اور اقتصادی صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ ہم قرضہ لے کر بھی خوش ہیں جو قرض ہم نے سود سمیت واپس کرنا ہے اسی دوران پاکستان کے حالات کا فائدہ اٹھا کر بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے قبضے کو مستحکم کر رہا ہے
اسرائیل کی طرز پر ڈیموگرافی کی تبدیلی سے دس سال بعد موجودہ کشمیر کی صورتحال ایسی نہیں رہے گی کشمیریوں کو کشمیر کے حالات پر سوچ بچار کرکے جدوجہد کیلئے کسی ایک نقطے پر اکٹھا ہونا ہوگا موجودہ صورتحال میں کشمیریوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے تحریک کیلئے مستقبل کا کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے میری زندگی کے اب دو ہی مقاصد ہیں مقبوضہ ریاست کیلئے جدوجہد کرنا اور آزادکشمیر کے جمہوری، آئینی حقوق کا تحفظ کرنا سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کو سینیئر صحافیوں امتیاز احمد اعوان، محمد عارف عرفی، صدر ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن آصف رضا میر نے خوش آمدید کہا اور تنظیم کے اغراض و مقاصد سے متعلق بریفنگ دی راجہ فاروق حیدر خان کا دوران خطاب کہنا تھا کہ کشمیر ہر کشمیری کا بنیادی مسئلہ ہے ہمیں یہ حق اور اختیار دیا جانا چاہیئے کہ ہم مستقبل کیلئے فیصلہ کریں آزادی کی جدوجہد جب تک ہمارے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوگی اس وقت تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیری مذہبی یا زمینی تنازعہ نہیں ہے ریاست جموں وکشمیر کثیر المذہبی ریاست ہے جہاں گوجری،گورمکھی، پہاڑی، ڈوگری سمیت متعدد زبانیں بولی جاتی ہیں 5 جنوری 1948 تک کشمیریوں کی جدوجہد کشمیریوں کے ہاتھ میں تھی اسکے بعد نہ کشمیریوں کے ہاتھ میں وہاں کچھ رہا اور نہ یہاں کچھ رہا اس میٹنگ میں موجود تھا جہاں گلگت بلتستان کو آزادکشمیر جیسا سیٹ اپ دینے کا فیصلہ ہوا لیکن بعد ازاں اسے بھی ثبوتاز کر دیا گیا اگر پاکستان نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا ہوتا تو کیا وہ بھارتی پانچ اگست کے اقدامات کے بعد بھارت کی مخالفت کر سکتا تھا مختلف ادوار میں کشمیریوں کی جدوجہد بدقسمتی سے اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی 1989 کے بعد جب سوویت یونین کی دیوار گری تو ہم نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی تو مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیااس جدوجہد میں جتنی قربانیاں کشمیریوں نے دی ہیں اسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اب ہم ایسے موڑ پر ہیں کہ آئندہ کا لائحہ عمل کشمیریوں کو تمام تفرقات سے بالاتر ہوکر اختیار کرنا ہوگا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں