مظفرآباد (پی آئی ڈی) چیف سیکرٹری آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر محمد عثمان چاچڑ نے کہا ہے کہ آزادکشمیر کے اندر انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہائیڈرل، سیاحت اور منرلز کے شعبوں میں وسیع پوٹینشل موجود ہے جس سے استفادہ کر کے ریاست کو معاشی طور پرمستحکم کریں گے۔ ریاست کے اندر قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
میری کوشش ہے کہ محکمہ جات کے اندر ایک منظم نظام قائم کروں کیونکہ اگر سسٹم ٹھیک ہو گا تو تمام مسائل بہتر انداز میں حل کیے جا سکیں گے اور سروس ڈیلوری میں بہتری آئے گی۔ میڈیا مثبت صحافت کو فروغ دے اور عوام کی درست سمت میں راہنمائی کرے۔ حکومتی کام کے تین مراحل ہوتے ہیں پالیسی، سٹریٹیجی اور ایکشن جن کے لیے منتخب نمائندگان اور بیوروکریسی مل کر کام کرتی ہے۔ سرکاری ملازمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ رولز ریگولیشن پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں جبکہ قواعد و ضوابط پر عملدرآمدکروانا اور ڈسپلن کا قیام میری ذمہ داری ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے چیف سیکرٹری آفس میں دارالحکومت کے سینئر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات و آئی ٹی محترمہ مدحت شہزاد اور ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری کوئی بھی چیز ڈکٹیٹ نہیں کرتا بلکہ صرف رولزپر عملدرآمد کو یقینی بناتاہے۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ چلتا ہوں اور میری کوشش ہے کہ سسٹم کو مضبوط کروں۔گڈگورننس کے نفاذ کے لیے محکمہ جات میں اصلاحات لائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں چیف سیکرٹری نے کہا کہ بجلی کے بلوں کے حوالے سے عوام کے تحفظات کا معاملہ بھی زیر غور ہے۔ عدالت العالیہ کے حکم کے مطابق بلات میں اضافہ روک دیا گیا ہے۔ بجلی کے بلات سے جو آمدن ہوتی ہے وہ آزادکشمیر حکومت کے اخراجات عمل میں لائے جاتے ہیں۔ اس وقت آزادکشمیر کے پورے بجٹ کا دو تہائی حصہ وفاقی حکومت کی طرف سے آتا ہے جبکہ ایک تہائی حصہ حکومت آزادکشمیر اپنی آمدن سے پورا کرتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تیرہویں آئینی ترمیم کو ریورس کرنے کا تاثر غلط ہے۔ کوئی بھی آئینی ترمیم آزادکشمیر اور پاکستان کے منتخب نمائندوں کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پندرہویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے جو مکتوب آیا ہے اس پر سب کمیٹی قائم کر دی ہے۔ پندرہویں ترمیم کایہ ہر گز مطلب نہیں کہ آزادکشمیر حکومت کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات واپس کیے جا رہے ہیں۔آئین میں ہمیشہ ترمیم اور بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ تیرہویں آئینی ترمیم میں جو مسائل رہ گئے تھے پندرہویں ترمیم میں صرف ان کو دیکھا جائے گا اور کوئی بھی ترمیم آزادکشمیر کے منتخب نمائندوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ پندرہویں ترمیم میں نہ تو آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کا کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی یہاں کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات واپس کیے جا رہے ہیں۔ ٹوراز م اتھارٹی کے قیام کے حوالہ سے سوال پر انہوں نے کہاکہ ٹور ازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام سے حکومت آزادکشمیرکے اختیارات کم نہیں ہونگے۔اگر اس طرح کی کوئی اتھارٹی بنی تو حکومت آزادکشمیر خود بنائے گی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں