مظفرآباد (آئی اے اعوان) سابق وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر اور پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے اپنی زندگی 84 ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی ریاست جموں وکشمیر کی بحالی اور آزاد کشمیر کے عوام کے جمہوری, آئینی ,قانونی اور مالیاتی اختیارات کے حصول اور تحفظ کیلئے وقف کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر اور لیگی راہنما راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا ہے کہ مجھے کسی حکومتی یا جماعتی عہدے کی خواہش ہے اور نہ ہی لالچ ہے میں نے اپنی بقیہ زندگی خواہ ایک منٹ پر محیط ہو یا دس سال پر 84 ہزار مربع میل پر پھیلی ریاست جموں وکشمیر کی بحالی اور آزاد کشمیر کے عوام کے جمہوری، آئینی، قانونی حقوق اور مالیاتی اختیارات کے تحفظ کیلئے وقف کر دی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بٹوارے کا خدشہ حقیقت میں بدل رہا ہے،
توقع ہے کہ یہ گناہ مسلم لیگ کے وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ اپنے ذمے نہیں لیں گے۔ریاست جموں کشمیر 84 ہزار مربع میل پر مشتمل ایک سیاسی اکائی ہے جس کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ صرف جموں کشمیر کے عوام ہی کرسکتے ہیں۔ جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے میرا ہے۔ یہ کشمیریوں کی آواز ہے جو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ اپنی جماعت کے منتخب اراکین اسمبلی اور جماعت کے مرکزی عہدیداروں سے بطور خاص یہ توقع رکھتا ہوں جو کریڈٹ تیرہویں ترمیم کے ذریعے مسلم لیگ ن نے حاصل کیا تھا اسے گنوا کر نشان عبرت نہیں بنیں گے۔اگر اس حوالے سے کوئی ایسی پیش رفت کی گئی تو میں تاؤ بٹ سے لیکر افتخارآباد تک قریہ قریہ گاؤں گاؤں اسے ناکام بنانے کے لیے سیاسی جدوجہد کرونگا۔ خصوصی بات چیت کے دوران راجہ محمد فا روق حیدر خان نے کہا ہے کہ موجودہ زیر کار ترمیمی مسودہ جو اس وقت گردش کررہا ہے اس میں دفعہ 31 اور 33 اور 56 میں ترمیم کے لیے حکومت پاکستان کی پیشگی اجازت ضروری جبکہ دیگر معاملات پر آزاد کشمیرقانون ساز اسمبلی بااختیار ہے۔
بدقسمتی سے 1975-70 کے درمیان پیپلز پارٹی نے حاصل کردہ اختیارات کشمیر کونسل کے سپرد کر دئیے تھے جس کا ریاستی سطح پر ناقابل تلافی نقصان ہوا اور تحریک آزادی کشمیر کو بھی شدید دھچکا لگا،عوام کے اندر بداعتمادی کی فضا ء پیدا ہوئی۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کونسل حکومت پاکستان کے اختیارات کے حوالے سے قانون سازی نہیں کرسکتی، آئین سازی اور قانون سازی عوام کے براہ راست منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے۔بالواسطہ منتخب ہونے والوں کے ذریعے ایسا ممکن نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جب آزادکشمیر کے عبوری آئین میں تیرہویں ترمیم منظور ہوئی تو موجودہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدہ پر فائز تھے اور وہ اس سارے عمل کا حصہ نہیں تھے اُس وقت یہ ترامیم قومی سلامتی کمیٹی سے منظور ہوئیں تھیں اب وزیراعظم پاکستان کو لاعلم رکھ کر ایسے آئینی ترمیمی مسودے کی منظوری لی گئی ہے جس سے آزادکشمیر کے اندر حکومت پاکستان کے ان اقدامات پر تشویش پائی جاتی ہے۔راجہ محمد فا روق حید خان نے کہا کہ مجھے یقین تو نہیں ہے لیکن موہوم سی اُمید رکھتا ہوں کہ آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے اراکین حاصل کردہ مالی،
آئینی قانونی اختیارات کو کسی شکل میں واپس نہیں ہونے دیں گے۔۔راجہ محمد فارق حیدر خان مزید کہا حرم پاک میں ایک اللہ کے بندے نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ تیرہویں ترمیم کی حفاظت کے لیے کھڑا ہونا اور میں حرم پاک میں کیے گئے اس عہد پر نہ صرف قائم ہوں بلکہ اس کے تحفظ کے لیے اپنی مکمل زندگی وقف کرنے کا عہد کررکھا ہے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں