وفاقی محتسب اور محتسب آزادکشمیر کے زیر اہتمام بچوں پر تشدد کے خلاف آگاہی مہم کی تقریب، آزادکشمیر کو بھی قومی مہم کا حصہ بنادیا گیا، نیشنل ٹاسک فورس قائم کر دی گئی

مظفرآباد (پی آئی ڈی) وفاقی محتسب اور محتسب آزادجموں وکشمیر کے زیر اہتمام بچوں پر تشدد کے خلاف آگاہی مہم کے سلسلہ میں تقریب جمعہ کے روز سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں وفاقی ایڈورٹائزر برائے گریوینس کمیشن فار چلڈرن محترمہ وقار النساء ہاشمی، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف آزادجموں وکشمیر سید منظور الحسن گیلانی، محتسب آزادجموں وکشمیر چوہدری محمد نسیم، سیکرٹری سماجی بہبود سردار جاوید ایوب، سیکرٹری تعلیم سکولز رزاق احمد ندیم، اور دیگر متعلقہ محکمہ کے آفیسران نے شرکت کی۔

اس موقع پر ایڈورائزر گریوینس کمیشن فار چلڈرن وقار النساء ہاشمی نے ملک میں بچوں کے حقوق کے حوالہ سے ہونے والی سرگرمیوں اور آگاہی مہم کے حوالہ سے بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں کو ان کے حقوق دلوانے اور انہیں آگاہی فراہم کرنے کے لیے ملک بھر میں وفاقی محتسب اور دیگر محکموں کے تعاون سے کام جاری ہے۔ اس حوالہ سے مختلف محکمہ جات کے آفیسران کو تربیت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ آزادکشمیر کو بھی ا س قومی مہم کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں آگاہی فراہم کرنے اور قانونی معاونت کے لیے نیشنل ٹاسک فورس بنائی گئی ہے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر سید منظور الحسن گیلانی نے کہا کہ بچوں کو ان کے حقوق کی فراہمی تشدد کے انسداد اور سزا دلوانے تک کے عمل میں آگاہی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آگاہی کے بغیر کسی بھی قانون پر عملدرآمد کروانا مشکل ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ ان کو اپنے حقوق کا علم ہو سکے۔ اس سلسلہ میں محکمہ تعلیم اور سوشل ویلفیئر کے اداروں کو فوکس کرتے ہوئے آگاہی مہم شروع کی جانی چاہیے جبکہ والدین بچوں اور اساتذہ کو اس مہم کا حصہ بنانا چاہیے تب جا کر بچوں کے خلاف تشدد اورانکے ساتھ بدسلوکی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے محتسب آزادجموں وکشمیر چوہدری محمد نسیم نے کہاکہ بچے انسانی سماج کی اکائی ہیں اور ایک انتہائی قیمتی اثاثہ ہیں۔ جن کی حفاظت، تعلیم و تربیت حقوق اور سماجی تحفظ کی فراہمی معاشرے کے تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ جدید تبدیلیوں نے دنیا کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے۔ جرائم کی نوعیت بدل گئی ہے اور سائبر کرائمز جیسی اصطلاحات سامنے آگئی ہیں جس کا تدارک بھی روایتی طریقوں سے یاروایتی قوانین سے نہیں ہو سکتا۔ تبدیلی کے ساتھ ساتھ سب کو ہی تبدیل ہونا پڑے گا۔ بچے کے ہاتھ میں موبائل فون دینے سے پہلے اسے پوری طرح سے سوشلائز کیا جائے کہ اس کا استعمال کس طرح کرنا ہے۔

بچے کو سمارٹ فون سے متعلق پوری طرح آگاہ کیا جائے اور خاص عمر تک پہنچ کر ہی اسے موبائل دیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کی جائے جس میں والدین،اساتذہ، بچوں اور ادارہ جات کو sesitise کیا جائے تاکہ معاشرے کے تمام طبقات اسے ایک مسئلہ سمجھیں اور مل کر اس سے نبرز آزما ہوں۔بچوں کو سائبر کرائمز اور منظم گروہوں کی جانب سے online exploitation سے بچانے کے لیے ہم سب مل کر اس کو ایک مقدس فریضہ جان کر کریں جس کے لیے مضبوط قانون سازی،اس سلسلہ میں ادارہ جاتی میکنزم کی ضرورت ہے تاکہ قانون کا نفاض موثر طریقے سے ہو سکے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اس معاملہ میں اپنا خصوصی کردار ادا کریں اور ادارہ محتسب کے ساتھ ہرممکن تعاون کریں۔ پاکستان پینل کورٹ 1860قانون شہادت آرڈر 1984اورprevention of Electronic crime Act 2016میں چند ترامیم کرنے کی تجاویز دی ہیں تاکہ ان قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتے یہ بل جب ایک قانون کی شکل اختیار کر لے گا تو اس کے اثرات آنے والی نسلیں محسوس کریں گی۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں