مظفرآباد (پی آئی ڈی) آزاد کشمیر کے سیکرٹری برقیات چوہدری محمد طیب نے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں حکومت آزاد کشمیر نے واٹر یوز چارجز میں اضافے اور آزادکشمیر میں پن بجلی کے منصوبوں کے حوالہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی اور کمیونٹی مسائل کے حوالہ سے دو مختلف نوعیت کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ پہلا معاہدہ واپڈا کے زیر انتظام چلنے والے منگلا ڈیم ریزنگ پراجیکٹ کے واٹر یوز چارجز میں اضافہ جبکہ دوسرا معاہدہ نیپرا کے ساتھ آزاد کشمیر میں چلنے والے پن بجلی کے منصوبہ جات کے مسائل حل کرنے کے حوالہ سے تھا۔
واٹر یوز چارجز کو 15پیسے سے بڑھا کر 1روپے 10پیسے کرنے کا سہ فریقی معاہدہ طے پایا جس میں وفاقی وزارت آبی وسائل، حکومت آزادکشمیر اور واپڈا فریق تھے۔ جبکہ دوسرا MOU حکومت آزادکشمیر اور نیپرا کے درمیان دستخط کیا گیا ۔ یہ دونوں معاہدات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ واٹر یوز چارجز تمام صوبوں کو ایک ہی شرح سے دیے جارہے ہیں یہ آزادکشمیر کا حق تھا جو اس کو دیگر صوبوں کے مسادی دیدیا گیا ہے۔ تربیلا اور غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر بھی اسی شرح سے واٹر یوز چارجز/رائیلٹی دی جارہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال، چیف انجینئر برقیات چوہدری محمد ظفر بھی موجود تھے۔ سیکرٹری برقیات نے کہا کہ جب صوبوں میں نیٹ ہائیڈرل پرافٹ میں اضافہ کیا گیا تو ہماری حکومت نے بھی اس میں اضافہ کا مطالبہ کیا۔ یہ معاملات گزشتہ 10سالوں سے چلتے رہے جو اب جاکر حتمی ہوئے۔
واٹر یوز چارجز میں جو اضافہ کیا گیا ہے اسکا اطلاق نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ اور مستقبل میں شروع ہونے والے منصوبہ جات پر بھی اسی شرح سے ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے پر وفاقی وزارت آبی وسائل کی جانب سے وفاقی سیکرٹری آبی وسائل، حکومت آزادکشمیر کی جانب سے چیف سیکرٹری جبکہ واپڈ ا کی جانب سے چیئرمین واپڈا نے دستخط کیے۔ اس معاہدے میں نیپرا فریق نہیں تھا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اس کا نیپرا کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا نیپرا نے اس کی منظوری دی ہے۔ یہ خالصتاً وفاقی حکومت اور حکومت آزادکشمیرکے درمیان معاہدہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی ایک اور MOU پر دستخط کیے گئے جس میں حکومت آزادکشمیر اور نیپرا فریق تھے۔ پاکستان میں بجلی کی ترسیل اور خرید و فروخت سمیت تمام معاملات نیپرا دیکھتی ہے۔ تاہم نیپرا کا دائرہ اختیار آزادکشمیر میں نہ ہے۔
پاکستان میں اگر بجلی کے کسی منصوبہ سے ماحولیاتی یا کمیونٹی مسائل جنم لیں اور اس منصوبہ پر کام کرنے والی کمپنی معاہدے کے مطابق ان پر عملدرآمد نہ کرے تو اس کے خلاف نیپرا کو درخواست دی جا تی ہے جس پر نیپرا اس شکایت کا ازالہ کر تی ہے اور متعلقہ کمپنی کو معاہدہ پر عملدرآمد کا پابند بناتی ہے جبکہ آزادکشمیر میں نیپرا کا دائرہ اختیار نہ ہونے کی وجہ سے ان مسائل کے تدارک میں مشکلات کا سامنا تھا۔ جس کی وجہ سے حکومت آزادکشمیر نے نیپرا کے ساتھ MOUسائن کیا تاکہ اگر مستقبل میں اس طرح کے ماحولیاتی یا کمیونٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو نیپرا کو درخواست دے کر ان مسائل کا حل کروایا جا سکے۔ ایک سوال کے جواب میں سیکرٹری برقیات نے کہا کہ یہ دونوں معاہدات ایک دوسرے سے الگ ہیں، واپڈا کا تعلق بجلی کی خرید و فروخت سے نہ ہے۔ بجلی کی خرید و فروخت وزارت توانائی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ جبکہ واپڈا وزارت پانی وبجلی کے ماتحت ادارہ ہے۔
پاکستان میں تمام پاور سپلائی کمپنیاں سینٹرل پاور پرجیز ایجنسی سے بجلی خرید کر صارفین کو سپلائی کرتی ہیں جبکہ آزادکشمیر میں محکمہ برقیات یہ تمام معاملات دیکھتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر میں بھی صارفین کو انہیں ریٹس پر بجلی فراہم کی جاتی ہے جن ریٹس پر پاکستان میں صارفین کوفراہم کی جاتی ہے دی جاتی ہے یہ اصول پہلے دن سے ہی طے شدہ ہے اس معاہدے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں