پیرس (پی این آئی) صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل کمیونٹی، یورپی یونین اور فرانس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کروائے کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف روز بروز انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ تناؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پاکستانی سفارتخانے میں فرانس کے تھنک ٹینکس اور بہت ہی با اثر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں کشمیر پر ہو چکی ہیں لیکن یہ اس وقت ہوئی جبکہ یہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں نہیں تھے۔ اب جبکہ پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں کے درمیان کوئی بھی چھوٹا یا بڑا حادثہ ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جو کہ پوری دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ لہذا عالمی برادری کو جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہماری خواہش ہے کہ انڈیا اور پاکستان آپس میں مذاکرات کریں کیونکہ اس مسئلے کا کوئی فوری حل نہیں تاہم ان مذاکرات میں کشمیریوں کو بھی شامل کیاجائے
لیکن اگر مذاکرات دو طرفہ ہوتے ہیں تو پھر انٹرا ء کشمیر ڈائیلاگ کا اہتمام کیاجائے کیونکہ جب دونوں اطراف کے کشمیری مل بیٹھیں گے تو اسی صورت میں یہ مذاکرات سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔لیکن اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں حالات بہتر کئے جانے چاہیے کیونکہ ایک طرف بھارت مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے۔ خواتین کی عصمت دری کی جا رہی ہے،پیلٹ گن کے استعمال سے نوجوانوں اور بچوں کی بینائی چھینی جا رہی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی عروج پر ہے۔
لہذا وہاں پر حالات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ا اس موقع پر (Prof. Jean-Luc Racine, Director of Research Expert India/Pakistan)،(Dr. Gilles Boquerat, Historian)،(Princess Kenize Mourad,)،(Gen. (Retd.) Alain Lamballe, Expert on South Asia)،(Mr. Jacques Follorou)،(Mr. Paul Comiti)،(Mr. Emmanuel Duparcq)،(Ms. Anelise Borges)،(Mr. Patrice Moyon) اور پاکستان کے فرانس میں سفیر سرور قریشی بھی موجود تھے۔ ڈھائی گھنٹے کی اس میٹنگ میں کشمیر سے متعلق مختلف امور پر بات چیت کی جاتی رہی۔ جس میں صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ابتداء میں بریفنگ دی اور بعد میں بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔
صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے اس موقع پر مزید کہا کہ افغانستان کی صورت حال سے اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ کسی قوم کو طاقت کے زور پر نہیں دبا یا جا سکتا۔ بالآخربات چیت کے ذریعے ہی مسائل حل ہوتے ہیں اور جارحیت کرنے والوں کو بالآخر نکلنا ہی پڑتا ہے جس طرح کہ افغانستان میں مداخلت کے بعد سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور اسی طرح امریکہ کو بھی افغانستان سے جانا پڑا اور امریکی صدر جو بائیڈن کو یہ کہنا پڑا کہ ہم نے طالبان کے خلاف افغان فوج کو کھڑا کرنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے لیکن ہم انہیں لڑنے کا جذبہ تو نہیں دے سکتے تھے۔صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے مزید کہا کہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا ایک نا مکمل ایجنڈہ ہے اور جنوبی ایشیاء میں تناؤ کی اصل وجہ یہی مسئلہ ہے جس سے برصغیر کی سیکورٹی اور امن داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
1947سے یہ مسئلہ چلا آ رہا ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اقوام متحدہ میں بھی قراردادیں پیش کی گئیں، اسی طرح شملہ معاہدے کے ذریعے دو طرفہ معاہدے بھی کیے گے لیکن اس کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے یہاں تک کے امریکہ نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھارتی ہٹ دھرمی کی نظر ہو گیا۔ اسی طرح جنرل مشرف نے بھی آؤٹ آف باکس حل دینے کی کوشش کی اگرچہ وہ بھارت کے مفاد میں تھا لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ لہذا یورپی یونین چونکہ ایک بڑا ادارہ بن چکا ہے اور یہ انسانی حقوق اور سماجی انصاف پر یقین رکھتے ہیں اور بریکزٹ کے بعد فرانس، یورپی یونین میں ایک اہم پلیئر ہے اس لئے وہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
کیونکہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بھی مستقل رکن ہے۔ پھر اُن کے پاکستان اور بھارت سے تعلقات ہیں تو وہ بھی ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ 27اکتوبر 1947سے بھارتی فوج نے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور یہ قبضہ اب تک جاری و ساری ہے۔ میں نے 22سے 31اکتوبر تک لندن، برسلز،دی ہیگ اور پیرس میں مظاہرے کیے اور وہاں پر مختلف تھنک ٹینکس اور پارلیمنٹرین سے مل کر انہیں مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال اور مسئلہ کشمیر پر بریفنگ دی۔ مجھے امید ہے کہ اتنے بااثر لوگ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ ۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں