اسلام آباد(پی این آئی) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے نیو یارک، نیو جرسی ، مونٹریال ، ٹیکساس، فریسکو کے رہنماوں کا زوم اجلاس منعقد ہوا جس میں پارٹی کے 18 نومبر کے فیصلوں کا آئینی، سیاسی اور دیگر پہلووں سے غور کیا گیا ۔اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ تنظیم کے ذمہ داران کو کہا جائے گا کہ تنظیم و
تحریک کے بہترین مفاد اور کارکنان کو مزید تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے اور انکی خواہشات کا حترام کرتے ہوئے عجلت میں اٹھایا گیا یہ غیر مقبول فیصلہ واپس لیا جائے۔ جے کے ایل ایف کے بانی رہنماوں کے زوم پر منعقدہ آج کے اہم اجلاس میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے بانی رہنماوں الطاف قادری اور فاروق صدیقی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پارٹی کے سینئر رہنماوں اور مرکزی عہدہ داروں سے اپنے رابطوں اور ہوئی گفتگو کے حوالہ سے ایک مفصل رپورٹ پیش کی۔ اسی طرح جے کے ایل ایف سپریم کونسل کے رہنما اور آرگنائزر برائے امریکہ انجینیر قاسم کھوکھر اور نارتھ امریکہ کے سابق صدر اور سابق ممبر سپریم کونسل حلیم خان نے آزاد کشمیر میں پارٹی کے سینئر رہنماوں سے ہونے والی اپنی گفتگو کے حوالہ سے اپنے تاثرات بیان کیے۔اجلاس میں تنظیم کے سابق سینئر وایس چیر مین اور ممبر سپریم کونسل راجہ مظفر نے خواجہ سیف الدین صاحب، راجہ ظفر خان صاحب اور پارٹی کے آزاد کشمیر زون، برطانیہ زون، یورپ زون کے صدور سے ہوی گفتگو کی روشنی میں اپنا تجزیہ پیش کیا۔جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے 18 نومبر کے فیصلوں کا آئینی، سیاسی سمیت ہر پہلو سے تفصیلی جایزہ لینے کے بعد اس اجلاس میں بحث مباحثہ کے بعد اتفاق رائے ہوا کہ اس فیصلہ سے تنظیم اور تحریک پر منفی اثرات ہوئے، لبریشن فرنٹ کی تنظیمی وحدت
اور اس کے چیئرمین یاسین ملک کی شخصیت پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان کی شخصیت کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔لبریشن فرنٹ کے چیئرمین سخت نگرانی کی جیل میں ہیں، ان سے سوائے ان کے وکیل اور ان کی فیملی کے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں اور کورونا کی وبا کی وجہ سے جیل میں دو بدو قیدیوں سے ملاقات پر 20 مارچ کے بعد سخت پابندی عائد کی گی ہے۔ اس لیے یہ تاثر دینا کہ یاسین ملک نے بہ حیثیت چیئرمین اس غیر معمولی فیصلہ کی منظوری دی ہے درست نہیں۔ سرینگر سے موصولہ اطلاع کے مطابق یاسین ملک صاحب کو نہ تو اس فیصلہ کی خبر ہے نہ ہی ان سے کوی رائے مانگی گئی ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر سے ملنے والی مفصل رپورٹ کے مطابق وہاں کی تنظیم، مرکزی عہدیداروں اور سپریم کونسل کی اکثریت کو اس فیصلہ کا نہ علم تھا اور بعض مرکزی رہنماوں کے بقول انہوں نے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ کشمیر میں جماعت پر پابندی ہے اور وہ جماعت کے نام پر کوئی سیاسی سرگرمی نہیں کر سکتے۔ انہیں بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی اجلاس کا پتہ چلا۔ وہاں سب ہی آزاد کشمیر اور بیرون ملک تنظیم کے اندر کی گروہ بندی کا سن کر سب پریشان ہیں اور ان کی متفقہ رائے ہے کہ ایسے حالات میں جن سے قوم گذر رہی ہے تنظیم میں انتشار کی خبریں پریشان کن ہیں۔ ہماری تنظیم کے سب زعما کو مشورہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے
خلاف بیان بازی سے احتناب برتیں۔پارٹی رہنماوں نے یہ بھی مرکزی تنظیم کو کہا کہ یہ فیصلہ آئین کے باب دویم آرٹیکل نمبر 8 کی جزو (د) سیکشن 5 اور 6 کے متصادم ہے۔آہین کے آرٹیکل 16 کی شق 4 اور شق 7 سے رہنمای نہیں لی گی۔ ہماری رائے میں 18 نومبر کو پوری تنظیم کو تحلیل کرنے کا سپریم کونسل کا فیصلہ غیر آئینی، غیر ضروری، غیر سیاسی اور بے وقت کا فیصلہ ہے۔اس اجلاس میں کثرت رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ فیصلہ ساز ادارہ سے کہا جائے کہ وہ تنظیم و تحریک کے بہترین مفاد اور کارکنان جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو مزید تقسیم ہونے سے بچانے اور ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوے 18 نومبر کا فیصلہ واپس لیا جائے، تمام زونز کی مشاورت اور تنظیمی آئین سے رہنمائی لیتے ہوئے تنظیم کی سابقہ وہ حیثیت بحال کی جاے جس پر تنظیم متحد و متفق تھی۔ من پسند افراد کے غیر جمہوری فیصلہ سے پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں مل بیٹھیں اور ہماری ان سفارشات پر ایک ہفتہ کی مدت کے اندر عملدرآمد کر کے اعلی ظرفی اور ذمہ داری کا ثبوت دیا جاے۔رہنماوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی جماعت اور تحریک کا خون ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ تنظیم شہیدوں کی تنظیم ہے ان کے خون کے تقدس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ کوئی فرد یا گروپ اس کا وارث ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں