نیامے(این این آئی) صدر آزاد کشمیر نے اسلامی تعاون تنظیم وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر وزرائے خارجہ کوتحریری طور پر آٹھ نکاتی تجاویز پیش کر دیں۔آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کے 47 ویں اجلاس کے موقع پراسلامی تعاون تنظیم کے
وزرائے خارجہ کوتحریری طور پر آٹھ نکاتی تجاویز پیش کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل سے اپیل کی کہ اسلامی تعاون تنظیم کے ستاون رکن ممالک کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خوفناک پامالیوں پر اجتماعی اظہار تشویش کے ساتھ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ کشمیروں کے حق خود ارادیت کا احترام کرے اور ایسے اقدامات کرے جن سے کشمیریوں کے لیے اپنا یہ حق آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ صدر سردار مسعود خان نے تجویز کیا کہ اسلامی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کونسل پر زور دے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت حال پر گہری سنجیدگی سے غور کرے اور اس کے اساسی حل کی طرف پیش رفت کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کرے کہ وہ جموں و کشمیر کے حوالے سے اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کرے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے یہ بھی مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے خصوصی مشیر برائے تدارک نسل کشی کو ہدایت کریں کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری نسل کشی کے بارے میں ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے نوٹس لے۔ اسلامی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل پر زور دے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق اور ان حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قوانین اور معائدات کی منظم خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن آف انکوائری مقرر کرے۔ صدر مسعود خان نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اسلامی تعاون تنظیم بھارتی حکومت کو مقبوضہ جموںو کشمیر میں اسلامی علامتوں کو مٹانے اور مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے بے حرمتی سے روکے نیز اسلامی ممالک سے کہا جائے کہ وہ بھارت کے خلاف معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ کی مہم شروع کریں اور اس کے آغاز کے لیے بھارت سے مسلمان ممالک کو برآمد کی جانے والی تجارتی اشیاء کے لیے حلال سرٹیفکیٹ کو ضروری قرار دیا جائے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سے اسلامی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے شرکا کو آگاہ کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ گذشتہ سال پانچ اگست سے اب تک بھارت کی نو لاکھ فوج نے پورے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادی کو محاصرے میں لے رکھا ہے اور مواصلاتی ناکہ بندی کی وجہ سے کشمیریوں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے ان کا نہ صرف ایک دوسرے سے بلکہ دنیا سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضہ کو بر بریت اور دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ کشمیریوں کو قتل کیا جا رہا ہے، انہیں زخمی اور معذور کرنے کے علاوہ انہیں گرفتار کر کے زبردستی غائب کیا جا رہا ہے اور یہ عمل بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں بیس ہزار قیدی ہیں جن میں سینکڑوں سیاسی رہنما اور سیاسی کارکن بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خود بھارت کی اپنی سول سوسائٹی تنظیموں کی مختلف رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال مقبوضہ کشمیر میں تیرہ ہزار نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جن میں دس ، گیارہ اور بارہ سال کے بچے بھی شامل تھے اور ان گرفتار نوجوانوں کو مقبوضہ کشمیر اور شمالی بھارت کی مختلف جیلوں اور نظر بندی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے محصور شہریوں کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں مل رہی ہے اور انہیں اجتماعی طور پر ختم کرنے کے لیے بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال انتہائی سنگین اور بظاہر ناقابل تلافی بن چکی ہے۔ا نہوں نے کہا کہ جائیداد کے نئے قوانین ، ڈومیسائل رولز ، غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کے ایکٹ، آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت مقبوضہ کشمیر میں نسلی تطہیر کا عمل تیز کر دیا گیا اور ان قوانین کی آڑ میں بھارتی قابض فوج کو ہر قسم کے جرم کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نافذ ظالمانہ قوانین کو گذشتہ صدی کے نورم برگ قوانین سے مماثل قرار دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور شمالی ہندوستان میں ایسے نظر بندی کیمپ قائم کیے گئے جنہیں ہٹلر کے گیس چیمبرز سے مختلف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ صدر آزاد کشمیر نے خبردار کیا کہ بھارتی حکومت جس تیزی سے غیر کشمیری بھارتی شہریوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں لا کر آباد کر رہی ہے اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو آئندہ ایک دو سال میں مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ غیر ریاست لوگوں کو کشمیریوں کی زمین خریدنے کا اختیار دیکر مقبوضہ کشمیر میں غیر ریاستی لوگوں کے لیے کالونیاں تعمیر کرنے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ صدر ریاست نے کہا کہ بھارت کی بی جے پی حکومت نے ہندو توا کے انتہا پسندانہ نظریہ پر عمل پیرا ہو کر کشمیریوں کی مرضی کے بغیر مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں مدغم کر دیا ہے۔ بھارتی حکومت کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ، ریاست کی متنازعہ حیثیت کی علامتوں یعنی علیحدہ آئین، جھنڈا اور قانون ساز اسمبلی کے خاتمہ کے بعد بھارتی حکومت انتخابات کا ایک ڈرامہ رچا رہی ہے تاکہ وہ اپنے غیر قانونی قبضہ اور اقدامات کو جائز قرار دلوا سکے۔ یہ اکیسویں صدی میں نو آبادیاتی نظام اور غیر ملکی قبضہ کی سب سے بڑی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کی قابض فوج لائن آف کنٹرول کے ساتھ آباد آزاد کشمیر کے چھ لاکھ شہریوں کو مسلسل جارحیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے جس کے نتیجہ میں صرف اس سال 30 شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد زخمی ہوئے اور شہریوں کی املاک تباہ ہوئیں۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ کشمیر کی حقیقی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایمبیسڈر یوسف الدوبے کی قیات میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کو اسلام آباد اور مظفرآباد بھیجنے پر بھی اسلامی تعاون تنظیم کا شکریہ ادا کیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں