اسلام آباد(پی این آئی)کشمیر گلوبل کونسل کے صدر فاروق صدیقی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو مکتوب لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ تنازعہ جموں کشمیر کیلئے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو نمائندہ بنایا جائے۔فاروق صدیقی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو لکھے گئے مکتوب میں کہا کہ میں آپ کی
توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اقوام متحدہ نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس مسلے کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرائے گا۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ سال 2018ء اور 2019ء یو این ایچ سی آر نے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی تھی اس پر انہیں دوبارہ یادہانی کرائی جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے جموں کشمیر پر تنازعے کو بھارت اقوام متحدہ میں لے گیا تھا اور اقوام متحدہ نے 1948ء میں ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا تھا لیکن 7 دہائیاں گزر جانے کے بعد ابھی تک یہ مسلہ جوں کا توں ہے لہذا اقوام متحدہ ہمارے حقوق غصب ہونے سے بچاتے ہوئے کشمیریوں کو غیر جانبدارانہ موقف سامنے لانے کیلئے سماعت کرے۔ فاروق صدیقی نے اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ تنازعہ جموں کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے رائے دہندگان سے معاونت بھی لی جائے۔ فریق ممالک اپنے طور پراس مسلے کے حل کیلئے اپنے اپنے آئین میں جو تبدیلیاں لا چکے ہیں یا لا رہے ہیں ، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ممالک جموں کشمیر کی کسی بھی طور پر نمائندگی نہیں کر سکتے اس لیے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس تنازعے کے اصل فریق یعنی کشمیریوں کو خود اقوام متحدہ میں اس تنازعے کیلئے نمائندگی کرنے کا حق دیا جائے۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنا خصوصی اجلاس بلاتے ہوئے یو این ایچ آر سی کی روشنی میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور مقبوضہ اراضی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ فریق ممالک کو کہے کہ انکی کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کیلئے کی جانے والی آئینی ترامیم غیر قانونی ہیں اور یہ جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل جموں کشمیر تنازعے بارے اپنی ان قراردادوں کو بھی مد نظر رکھے جن میں انہوں نے اس طرح کے تنازعوں میں یکطرفہ حل کو نا قابل قبول ٹھہرایا ہوا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں متنازعہ علاقے میں آبادی کے ڈھانچے میں جان بوجھ کر کی جانے والی تبدیلیوں کو بھی روکا جانا چاہیے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں