موسمیاتی سمارٹ ایگریکلچر: نیاب میں کیسٹر بین کے فروغ کے لیے قومی تربیت کا انعقاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصل آباد: نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ فار ایگریکلچر اینڈ بیالوجی (نیاب) نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں اور کیسٹر بین کی پیداواری صلاحیت کے تناظر میں قومی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔
ڈاکٹر مسعود اقبال، ممبر سائنس’ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پر امن استعمال سے ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے کردار کو اجاگر کیا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن توانائی، صحت، خوراک، زراعت اور ریڈیو آیسوٹوپ کی پیداوار سمیت قومی اہمیت کے مختلف شعبوں میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کمیشن کی طرف سے زراعت کے شعبے میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے استعمال کا خاص طور پر ذکر کیا اور بتایا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چار زرعی تحقیقی مراکز یعنی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ (نیبجی) اور نیاب فیصل آباد جبکہ نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر (نیا) ٹنڈوجام اور نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ فار فوڈ اینڈ ایگریکلچر (نیفا) پشاور سے اب تک مختلف فصلوں کی 159 اقسام متعارف کرائی ہیں جن میں سے 68 اقسام اب بھی کھیتوں میں بوئی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر مسعود اقبال نے کہا، “اس منفرد تربیتی ورکشاپ میں مدعو کیے جانے پر مجھے بے حد خوشی ہے۔ شرکاء کی بڑی تعداد کسانوں کے ساتھ نیاب کے فعال تعاون کا منہ بولتاثبوت ہے جو کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی انتظامیہ کے لیے بھی فخر کا باعث ہے
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے 1956 میں جوہری ٹیکنالوجی کے پر امن استعمال کے مینڈیٹ کے ساتھ کام کا آغاز کیا اور ہمارا پہلا زرعی مرکز نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر (نیا) 1961 میں ٹنڈوجام میں قائم کیا گیا۔
آج سندھ میں بوئی جانے والی 40 فیصد گندم نیا ٹنڈو جام کی اقسام سے پیداوار دے رہی ہے۔ پاکستان کی پہلی GMO کپاس کی فصل کی قسم نیبجی نے تیار کی ہے اور اسے منظور کر لیا گیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں پی اے ای سی کے چھ جوہری پاور پلانٹس نیشنل گرڈ کو 3500 میگاواٹ سے زیادہ بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں، PAEC اپنے 20 اٹامک انرجی کینسر ہسپتالوں کے ذریعے ملک میں کینسر کے تقریباً 80 مریضوں کی تشخیص اور علاج کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ کینسر کی تشخیص کے لیے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (پینسٹک) کی تیار کردہ ریڈیو فارماسیوٹیکل کٹس ملک بھر کے کینسر ہسپتالوں کو فراہم کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ایک عالمی معیار کی انجینئرنگ یونیورسٹی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز (پیاس) نیوکلیئر اور متعلقہ انجینئرنگ کے شعبوں میں کورسز کروا رہی ہے۔”
قبل ازیں، ڈاکٹر محمد یوسف سلیم، ڈائریکٹر نیاب نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور نیاب کی جانب سے تربیتی ورکشاپ کے انعقاد کے مقصد کے بارے میں بتایا جو ٹیکنالوجی کی کی منتقلی کے ذریعے کیسٹر بین کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ نیاب کی جانب سے متعارف کرائی گئی ارنڈ کی مختلف اقسام صرف 140 دنوں میں 100 من فی ایکڑ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس موقع پر ادارے کے فوکل پرسن برائے کیسٹر بین اور تل ڈاکٹر محمود الحسن نے قومی تقریب کے بارے میں تفصیلی پریزنٹیشن دی اور شرکاء کو خوش آمدید کہا۔
سید اصغر علی شاہ سابقہ وفاقی وزیر زراعت اور ڈاکٹر سہیل ظفر سابقہ وزیر تجارت و صنعت نے بھی خطاب کیا۔
“کاشتکاروں کے کھیتوں میں آمدنی بڑھانے کے لیے نیاب کی جدید اقسام کی کاشت کی تربیت” کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں کاسٹر بین سے وابستہ تقریباً 400 اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی جن میں ترقی پسند کسان، بیج کمپنیاں، صنعتیں، برآمد کنندگان، سائنسدان، R&D اداروں اور یونیورسٹیوں کے فیکلٹی ممبران شامل تھے۔ شرکاء چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور بیرون ملک سے جمع ہوئے جن کا تعلق برطانیہ عمان اور کوریا سے تھا۔
اس تقریب میں نیاب گولڈ، نیاب سپاینلیس اور نیاب کیسٹر 2023 کا فیلڈ وزٹ بھی شامل تھا جو کہ موسمیاتی لحاظ سے موزوں اور کم مدت میں زیادہ پیداوار دینے والی ہیں۔ تربیتی ورکشاپ کے اختتام پر ترقی پسند کاشتکاروں میں نیاب کیسٹر بین اقسام کے پری بیسک بیج بھی تقسیم کیے گئے۔ کیسٹر بین بنیادی طور پر کیسٹر آئل نکالنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، جس میں مختلف صنعتی اور دواؤں کے استعمال کے علاوہ بائیو فیول کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں