دمشق، استنبول، ماسکو، تہران (اے ایف پی، جنگ نیوز) شام میں باغیوں نے قبضہ کرلیا، باغی دارالحکومت دمشق میں داخل ہوگئے، صدر بشارالاسد فرار ہوکر ماسکو پہنچ گئے۔
روس کا کہنا ہے کہ بشارالاسد فرار ہونے سے قبل مستعفی ہوگئے تھے، روسی نیوز ایجنسی نے معزول صدر کے ماسکو پہنچنے اور روس کی جانب سے سیاسی پناہ دیئے جانے کی تصدیق کردی۔اسد خاندان کا 54 سالہ اور بشارالاسد کا 24 سالہ دور اقتدار ختم ہوگیا، باغی گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ محمد الجولانی کی قیادت میں مخالف گروپ نے دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا، بشارالاسد دور کے وزیراعظم برقرار، باغی گروپ نے اقتدار کی منتقلی تک وزیراعظم کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی، جنگجوؤں کو سرکاری اداروں پر قبضہ نہ کرنے کی ہدایت کردی۔
باغیوں کے دارالحکومت میں داخل ہونے کے بعد صدارتی محل پر لوٹ مار، ہجوم بشار الاسد کے پرتعیش گھر سے قیمتی اور نایاب سامان لے اڑے، مشتعل ہجوم کا دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر بھی حملہ، توڑ پھوڑ کی، ایرانی سفارتخانے کا عملہ پہلے ہی ملک سے نکل چکا تھا، دارالحکومت میں پیر کی صبح 5 بجے تک کرفیو نافذ کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے ہزاروں جنگجو بھی شام سے واپس چلے گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے شامی علاقے میں جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا، صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی افواج کو قنیطرہ میں داخل ہونے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد اسرائیلی ٹینک شامی علاقے میں داخل ہوگئے۔ اسرائیلی طیاروں نے دارالحکومت دمشق پر فضائی حملے بھی کئے ہیں جس سے وہاں سکیورٹی کی عمارت میں آگ بھی بھڑک اٹھی۔
اقوام متحدہ، امریکا، یوکرین، یورپی اور مغربی ممالک نے بشارالاسد حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ عرب ممالک نے محتاط رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی عمل کو آگے بڑھانے پر زور دیا ہے۔امریکا کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے، منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس اور ایران کمزور ہوئے ہیں اس لئے وہ بشارالاسد کو نہیں بچا پائے۔ افغان طالبان نے باغی گروپ کو کامیابی پر مبارکباد پیش کی ہے۔ ترکیہ کا کہنا ہے کہ وہ شام کی سلامتی یقینی بنانے کیلئے مدد دینے کیلئے تیار ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ شام کی قسمت کا فیصلہ شامی عوام کو ہی کرنا چاہئے۔ تہران حکومت نے شام کیساتھ مستقبل میں بھی خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
قبل ازیں اتوار کو علی الصبح حیات تحریر الشام سے منسلک باغی دمشق میں داخل ہوگئے۔ باغیوں نے سرکاری ٹی وی پر قبضہ کرنے کے بعد دمشق پر کنٹرول مکمل کرنے کا اعلان کیا۔ جنگجوؤں نے حلب اور حمص کے بعد دمشق کی جیلوں سے بھی قیدیوں کو رہا کروالیا۔ اس دوران ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے مجسموں کو گرانا شروع کردیا جبکہ عمارتوں پر لگی بشار کی تصاویر بھی پھاڑ دیں۔ شہریوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر جشن مناتی رہی۔ ترک وزیرخارجہ ہاکان فیدان نے بھی بشارالاسد کے ملک سے فرار ہونے کا بتایا ہے۔ دوحہ فورم برائے بین الاقوامی سیاسی مکالمے میں فیدان نے کہا کہ اسد حکومت گر گئی ہے اور ملک کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس نے شام میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات کی پیروی کی ہے اور وہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے کئے گئے اقدامات سے خوش ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے اتوار کے روز کہا کہ ان کی حکومت “اپنے شامی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی مرضی اور انتخاب کا احترام کرتی ہے”۔شام کی جنگ کی نگرانی والی برطانوی تنظیم نے بتایا ہے کہ شامی باغیوں کی جانب سے 11 روز قبل ایک بڑی کارروائی شروع کرنے کے بعد سے اب تک 138شہریوں سمیت 900 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس کا اختتام دمشق پر ان کے کنٹرول میں ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں 380 شامی فوجی اور اتحادی جنگجو اور 392 باغی شامل ہیں۔
دریں اثناء اتوار کے روز برلن اور یورپ کے شہروں میں ہزاروں پرجوش شامیوں نے ریلیاں نکالی، وہ پرچم لہراتے ہوئے اور صدر بشار الاسد کے خاتمے کی خوشی میں نعرے لگارہے تھے۔ 5ہزار افراد نے برلن کی سڑکوں پر ریلی نکالی۔ وسطی استنبول میں فتح مسجد کے باہر سیکڑوں لوگوں نے جشن منایا، یہ علاقہ ترک شہر میں 500,000 مضبوط شامی کمیونٹی کے لئے مرکزی علاقوں میں سے ایک ہے۔ لندن کے ٹریفلگر اسکوائر پر سیکڑوں شامیوں نے بشار الاسد کے خاتمے کا جشن منایا، ایک دوسرے کو گلے لگایا اور “مبارکباد!” کے نعرے لگائے۔ ہزاروں شامیوں اور ان کے حامیوں نے ویانا کے مرکز میں اور اسٹاک ہوم اور کوپن ہیگن سمیت نارڈک شہروں میں بھی ریلیاں نکالیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں