حکومتی قانونی مشیر بیرسٹر عقیل ملک نے ان نکات کی وضاحت کی ہے جن کی بنیاد پر خصوصی پارلیمانی کمیٹی پاکستان کے اگلے چیف جسٹس کی نامزدگی کرے گی۔نئی عدالتی اصلاحات کے تحت، جو پارلیمنٹ کے ایک صبح سویرے اجلاس میں منظور کی گئیں، پاکستان کے چیف جسٹس کو اب ایک پارلیمانی کمیٹی منتخب کرے گی اور اس عہدے کی مدت تین سال مقرر ہو گی۔
یہ ترامیم ایسے وقت میں کی گئی ہیں جب چند روز بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہونے والے ہیں۔پرانے قانون کے تحت، ان کی جگہ خود بخود سب سے سینئر جج آجاتے، جو اس وقت منصور علی شاہ ہیں، جنہوں نے عمران خان اور ان کی جماعت کے حق میں سمجھے جانے والے فیصلے دیے ہیں۔
بیرسٹر عقیل کہا، ’یہ ایک پارلیمانی کمیٹی ہوگی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہوگی اور باضابطہ طور پر نامزدگی کی وجوہات فراہم کی جائیں گی۔‘انہوں نے مزید کہا، ’یہ ایسا نہیں ہوگا کہ اپنی مرضی کا جج مقرر کر لیا جائے‘۔
سپریم کورٹ کے تین سب سے سینئر ججوں کا جائزہ لیتے وقت سینیارٹی، فٹنس، قانونی مہارت، قانونی حکمت، اسناد، تعلیمی پس منظر اور صوبائی عدالتوں میں تجربہ زیر غور لایا جائے گا۔بیرسٹر عقیل نے کہا، ’یہ وجوہات تحریری طور پر بیان کی جائیں گی۔ یہ بتایا جائے گا کہ ہم کس کو غور کر رہے ہیں اور کس کو نہیں۔‘
ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ ججوں کی نامزدگی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا قیام تحریک انصاف کے منشور کا بھی حصہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ حکومت عدلیہ کو کنٹرول کر رہی ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہم نے اپنا حق واپس حاصل کیا ہے‘ اور کہا کہ صرف ایک سپریم کورٹ ہے اور یہ ایسا نہیں ہے کہ ’دو ججوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا ہو۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں