آج عبداللہ حسین کی نویں برسی ہے
عبد اللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد خان تھا۔ والد محمد اکبر خان ایکسائز انسپکٹر تھے، جن کا آبائی وطن ضلع بنوں تھا۔
عبد اللہ حسین کے والدین وطن کو خیر باد کہہ کر پنجاب میں آبسے تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں۔ عبد اللہ حسین اپنے والد کی پانچویں اور آخری بیوی کی واحد اولاد تھے اور پاچ برس کی عمر سے گجرات میں رہنے لگے تھے۔ والد کی ملازمت کی وجہ سے انہیں مختلف علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ وہ راولپنڈی کے علاوہ فیروزپور اور جھنگ جیسے شہروں میں بھی رہے۔
عبد اللہ حسین کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ محمد اکبر خان اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت اور رہن سہن پر پوری توجہ دیتے تھے اور ان کا ہر وقت خیال رکھتے تھے۔ نو برس کی عمر میں عبد اللہ حسین کی مذہبی درس و تدریس کے سلسلے میں صدرالدین نام کے ایک مولوی صاحب کو رکھا گیا۔ انہوں نے پرائمری کی تعلیم سناتن دھرم اسکول میں حاصل کی جو 1960ء کے بعد مدرسۃ البنات کہلایا اور 1946ء میں گجرات کے اسلامیہ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1952ء میں انہوں نے زمیندار کالج، گجرات سے بی ایس سی کیا۔
عبد اللہ حسین کو انگریزی ذریعہ تعلیم کی وجہ سے زبان پر دسترس حاصل ہو گئی۔ اسی زمانے میں انہوں نے کئی انگریزی ناول پڑھے۔ پھر دیگر یورپی ادب کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ روسی اور فرانسیسی ناول پڑھے۔ انہوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ترجمے خود کیے اور براہِ راست انگریزی میں بھی ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔
ان کے گھریلو حالات بہت اچھے نہیں تھے اس وجہ سے وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ضلع جہلم کے ڈنڈوت میں واقع ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری اور نیشنل فیکٹری میں بطور اپرینٹس کیمسٹ ملازمت اختیار کر لی۔ بعد ازاں میانوالی کے داؤد خیل میں میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ کے عہدہ پر تقرری ہوئی۔ 1959ء میں عبد اللہ حسین کو کولمبو پلان کا فیلو شپ ملا۔ میک ماسٹر یونیورسٹی کینیڈا سے کیمیکل انجینئری میں ڈپلوما حاصل کرنے کی غرض سے کینیڈا جانا پڑا لیکن صرف ایک سال دو مہینے بعد ہی پاکستان لوٹ آئے جہاں ان کو پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں سنیئر کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔
عبد اللہ حسین کی طبعیت میں ٹھہراؤ یا یکسانی کم تھی۔ ممکن ہے یہ ذہنیت بچپن کے دور کی حکومتی پالیسیوں یا برطانوی سامراج میں رونما ہونے والے واقعات یا حالات سے تجربوں کی شکل میں ان کی زندگی کا حصہ بن گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1965ء میں پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ملازمت سے استعفا دے دیا اور فاروقیہ سیمنٹ فیکٹری میں چیف کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت کرلی لیکن یہاں بھی وہ اپنی بے چین طبیعت کی وجہ سے زیادہ دن نہ ٹک سکے اور دسمبر 1966ء میں اس فیکٹری کو بھی خیر باد کہا۔ پھر پاکستان سے لندن چلے گئے وہاں برمنگھم شہر کے ایک ادارے کول بورڈ (Coal Board) میں اپرینٹس کیمسٹ کی حیثیت سے 1967ء میں ملازمت اختیار کی لیکن محض دو سال ہی یہ ملازمت رہی اور اسے چھوڑ دیا اور لندن کے ایک ادارے نارتھ تھامس گیس بورڈ سے وابست ہو گئے۔ لیکن کچھ عرصے بعد قدرتی گیس کی دریافت ہوئی تو معاشی حالت کچھ زیادہ بہتر نہ ہونے کے سبب ادارے نے اپنی مرضی سے ملازمت سے سبکدوش ہونے والوں کو خصوصی پیکج دینے کا اعلان کیا اور عبد اللہ حسین نے 1975ء میں استعفا دے دیا، ان کے اہل خانہ کو یہاں آئے ہوئے پانچ سال ہوچکے تھے۔ ایک سال بعد انہوں نے پھر پاکستان کا رخ کیا اور وہاں مستقل سکونت کا ارادہ کیا لیکن اس زمانے میں پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ انہوں نے انتخاب کے دوران اپنے دوست حنیف رامے کا خوب بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا لیکن وہ الیکشن ہار گئے تو ان کو کافی صدمہ پہنچا۔ وہ فوجی حکومت کی نگاہ میں بھی آچکے تھے اس لیے مجبوراً 1977ء کے درمیانی عرصے میں برطانیہ چلے گئے۔ چند مہینوں بعد ان کی بیوی کو لیبیا کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی اور عبد اللہ حسین بھی لیبیا روانہ ہو گئے۔ اب انہیں فرصت کے لمحات میسر آئے ۔
عبد اللہ حسین کی شادی ڈاکٹر فرحت آرا سے 1963ء میں ہوئی تھی، جن سے ایک بیٹا علی خان اور ایک بیٹی نور فاطمہ ہیں۔
عبد اللہ حسین کے والد کو شکار کا بڑا شوق تھا۔ اپنی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ان کی شکار سے دلچسپی خوب بڑھی، معاشی حالات بہتر نہ ہونے کے سبب انہیں زراعت کا پیشہ اختیار کرنا پڑا۔ گجرات میں زراعت کے لیے ان کے پاس اراضی تھی۔ کھیتی باڑی اور دیہی زندگی سے قریب تر رہنے کے باعث عبد اللہ حسین کی ذہنی نشو و نما میں یہ سارے ماحول، مناظر اور حالات کارفرما رہے۔ عبد اللہ حسین کو اپنے والد سے شدید محبت تھے۔ عبد اللہ حسین کا کہنا تھا کہ ان کے والد کو مطالعے کا شوق تھا اور بہت اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ ان کی ذاتی لائبریری بھی تھی، ان کے پاس سترہ جلدوں پر مشتمل کتاب The Secrets of the Court of King James موجود تھی۔ اس کتاب کا اس زمانے میں رکھنا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ وہ برطانوی حکومت کے ملازم ہونے کے باوجود اپنے باغیانہ مزاج کی وجہ سے اس پابندی سے ذرا خائف نہ تھے۔ جب ذہنی تربیت اور اس کی پرداخت ایسے ماحول میں ہو تو پھر عبد اللہ حسین میں اس طرح خصوصیتوں کا درآنا لازمی تھا۔ اپنے والد سے بے پناہ محبت اور شیفتگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:
” میں اپنے والد کا اکلوتا بیٹا تھا۔ لڑکپن کے زمانے مین ان کے ہمراہ پندرہ پندرہ بیس بیس میل شکار کے پیچھے گھومتے ہوئے انہوں نے مجھے زمین اور آسمان کی ساری جاندار اور بے جان چیزوں کے بارے میں، جو کچھ وہ جانتے تھے بتایا۔ کھیت، فصلیں، کسان، دھوپ، بادل، بارش، چرند پرند، رنگ موسم، سب! پھر جاڑوں کی صبح کو طلوع آفتاب سے پہلے کی روشنی میں کمر کمر تک یخ پانی میں کھڑے بندوقیں کندھوں پر رکھے مرغابیوں کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے مردوں اور عورتوں ۔۔۔ انسانوں اور آدمیوں کے بارے میں باتیں۔لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا، محبت اور نفرت اور جنس، دوستی اور دشمنی اور قربانی اور غیرت۔۔۔ زندگی کی دوسری بڑی بڑی باتوں کا ذکر کیا۔ جب تک وہ رہے ان کی دھیمی، متوازن، دانا آواز میرے ساتھ ساتھ رہی اور کسی شخص، کسی شے کے خوف کا سایہ بھی پاس نہ پھٹکا۔ “
ماں کا وجود ان کے لیے اتنا ہی اہم تھا جتنا والد کا۔ وہ اس بات پر ملول تھے کہ انہوں نے تمام زندگی صدمے جذب کیے اور کبھی کبھار تو ایسا بھی محسوس محسوس کرتے تھے جیسے وہ کوئی عظیم Shock Absorber قسم کی کوئی چیز ہوں۔ انہوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، پرکھا اور سمجھا۔ ان سے جو بھی تجربات ملے یا تو سکھ کی شکل میں یا کبھی صدمات کے روپ میں۔ انہوں نے لکھا:
” میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ماں کی کمی میری شخصیت کی تکمیل میں اتنا ہی اہم رول ادا کرتی ہے جتنا کہ والد سے میری وابستگی۔ میرے اندر ماں کی ضرورت ہمیشہ ایک دبی دبی سطح پر موجود رہی ہے جسے آپ لاشعوری سطح کہہ سکتے ہیں۔ میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا۔ وہ مجھے یاد تک نہیں لیکن یہ کمی کبھی دور نہیں ہوئی ہمیشہ موجود رہی ہے اور میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ کمی، یہ تلخی کا احساس جو لاشعوری ہے بعض وقت اس وابستگی سے زیادہ شدید ہو گیا جو مجھے والد سے تھی۔ تلخی کا یہ پرانا احساس زیادہ گہرا اور اثردارتھا اور اس نے مجھے زیادہ متاثر کیا ہے۔ میں نے اپنے والد کا زیادہ ذکر کیا ہے کیونکہ وہ زیادہ حقیقی تھے ایک جسمانی اور حقیقی سطح پر، لیکن ماں کسی اور سطح پر، گہری سطح پر زیادہ اصلی معلوم ہوئی ہے اور پوشیدہ طاقت ثابت ہوئی ہے اور شاید زیادہ اثردار۔ میں اس سکون اور طمانیت سے محروم رہا ہوں جو میں نے لوگوں کو اپنی ماؤں سےحاصل کرتے دیکھا ہے۔ مجھے یہ سکون اور سکھ حاصل کرنے کا موقع ہی نہ ملا، یہ سکون مجھے کسی اور سے نہ مل سکا، نہ والد سے، نہ بہنوں سے۔ اس وجہ سے میرا بچپن بہت دکھ میں گزرا۔ اگر میں نے اس طرح دکھ نہ اٹھایا ہوتا تو اس طرح لکھا بھی نہ ہوتا۔ کسی اور طرح لکھا ہوتا یا شاید بالکل ہی نہ لکھتا۔ میرا یقین ہے کہ جسمانی تکلیف سے، کسی قسم کی تکلیف سے کسی نہ کسی طرح کی تخلیقی چیز جنم لیتی ہے “
عبد اللہ حسین نے جب اپنے لیے کوئی قلمی نام اختیار کرنا چاہا تو انہیں خود اپنا نام محمد خان پسند نہیں آیا صرف اس لیے کے کرنل محمد خان وہاں پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انھیں سیمنٹ فیکٹری کا ہم منصب “طاہرعبداللہ حسین” کا نام اچھا لگا اور انہوں نے “عبد اللہ حسین” بطورِ قلمی نام اختیار کر لیا۔
عبد اللہ حسین نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات کہانی لکھنے سے کی تھی اور باقاعدہ اشاعتی سلسلہ 1962ء میں رسالہ سویرا لاہور میں شائع ہونے والی کہانی ندی سے ہوتا ہے۔ ندی کی اشاعت کے ایک برس بعد اسی رسالے میں ان کی تین کہانیاں سمندر، جلاوطن، پھول کا بدن شائع ہوئیں۔ 1963ء میں عبد اللہ حسین کی ایک اور کہانی دھوپ چھپی۔ پھر انہوں نے ایک طویل خاموشی اختیار کر لی۔ 27 فروری کی ایک گفتگو (مطبوعہ سویرا، لاہور، شمارہ 35) میں عبد اللہ حسین نے کہانی لکھنے کے اپنے شروعاتی دور کی دلچسپی کے تعلق سے کہا تھا:
” یہ جو لکھنے کا معاملہ ہے، یہ میں نے بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا۔ میں نے اپنی پہلی کہانی اس وقت لکھی تھی جب میں میٹرک میں پڑھتا تھا۔ وہ کچھ ایسی تھی کہ، ایک ہمارے بھائی ہیں، ایک ہماری بھابی ہیں اور ایک بھابی کی بہن ہیں۔ وہ ہمارے گھر آئیں اور میں ان سے ملا۔ Boy Meets Girl قسم کی رومانی چیز تھی۔ اس کا نام بھی مجھے یاد ہے، “سورج کی کرنیں” یہ کہانی بہت عرصے تک میرے پاس رہی، پھر پتہ نہیں کہاں گئی۔ اس کے بعد میں نے ایک اور کہانی لکھی اس میں بھائی کا ذکر تھا۔ حالانکہ میرا کوئی بھائی نہیں لیکن پتہ نہیں کیا چکر تھا، میرے ذہن میں۔ خیر، کہانی میں یہ تھا کہ بھائی کی جہاں شادی ہوئی ہے، میں اس گھر میں جاتا ہوں۔ کہانی صیغہ واحد متکلم میں تھی اور وہاں دو بہنیں ہیں۔ ایک بڑی ہے مجھ سے اور ایک چھوٹی ہے اور دونوں مجھے ایک طرح سے Seduce کرتی ہیں یا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بس ایسی ہی کچھ کہانی تھی۔ مجھے اس کا نام بھی یاد نہیں۔ یہ کہانی چھپی بھی تھی ۔ میں لاہور میں فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا۔ لاہور سے ایک زمانے میں بڑا واہیات سا رسالہ نکلا کرتا تھا جس کا نام حسن پرست تھا، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی خراب چیز میں نے اس زمانے میں لکھی ہے تو اب میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ وہ میں نے نہیں لکھی۔
وہ میری پہلی کہانی تھی جو چھپی۔ اس کے چند سال بعد میں تین کہانیاں اور لکھیں۔ اس وقت میں بی ایس سی میں پڑھتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ ان کہانیوں میں کیا تھا، بہرحال وہ تین تھیں۔ ان دنوں نقوش نیا نیا نکلا تھا۔ ہم نے پڑھا، بڑا پسند آیا۔ وہ تینوں کہانیاں ان کو بھیج دیں۔ نقوش کے مدیر نے کہانیاں واپس کردیں اور کوئی اس قسم کی بات لکھی کہ آپ کو لکھنے کی سمجھ تو ہے لیکن سلیقہ نہیں۔ یا لکھنے کا سلیقہ تو ہے لیکن سمجھ نہیں اور ذرا مشق کریں۔ بہرحال ہم بڑے بددل ہوئے کہ اپنی طرف سے ہم نے بڑی شاہکار کہانیاں لکھیں اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر تین چارسال اسی طرح گزر گئے۔
1956ء میں والد کے انتقال سے عبد اللہ حسین کو شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوئے۔ انہوں نے کہا تھا:
” 1956ء میں والد فوت ہوئے، پھر میں بیمار ہو گیا، اسپتال میں رہا۔ جب میں ٹھیک ہو گیا تو میں نے مئی میں یہ ناول (اداس نسلیں) لکھنا شروع کیا۔ “
“اداس نسلیں” لکھنے کے لیے عبد اللہ حسین نے مواد کے حصول کا کام جون 1956ء سے ہی شروع کر دیاتھا۔ وہ پانچ سال تک اس پر محنت کرتے رہے اور مئی 1961ء میں یہ پایۂ تکمیل کو پہنچا لیکن اس کی اشاعت 1963ء میں عمل میں آئی۔ اس ناول میں تین نسلوں کے کوائف بیان کیے گئے ہیں۔ اس ناول کے پلاٹ اور مرکزی خیال کے بارے میں ان کا کہنا تھا:
” اس کا جو پلاٹ ہے، مرکزی پلاٹ، وہ شروع سے آخر تک ایک ہی دفعہ ذہن میں آیا تھا۔ جب لکھنا شروع کیا تھا اس وقت یہ میرے لیے اتنی اہم نہ تھی، پھر میں نے باقاعدہ اس بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ کتابیں پڑھیں، لوگوں سے ملا، شروع کے کئی باب لکھنے کے بعد کی بات ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ پہلی جنگ عظیم جہاں سے شروع ہوتی ہے وہاں تک لکھنے کے بعد کی بات ہے۔ میں نے باقاعدہ تاریخ پڑھی، اپنے عہد کی تاریخ، جنگ کے سلسلے میں بڑے دور دور کے گاؤں میں جا کر پرانے سپاہیوں سے ملا۔“
عبد اللہ حسین کے اس ناول کو لکھنے کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ ایک صوبیدار خداداد خان سے ملنے لیے، جنہیں پہلی جنگ عظیم میں وکٹوریہ کراس ملا تھا، پندرہ میل پیدل چلنا پڑا۔ عبد اللہ حسین چاہتے تھے کہ ناول میں حقیقی واقعات بھی شامل ہوں۔ وہ اس زمانے کے حقائق کو اس انداز سے فکشنائز کرنا چاہتے تھے کہ تاریخی وقوعے سامنے آجائیں۔ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ ان کا ذوق و شوق بن گیا اور انہوں نے کافی کتابیں پڑھیں۔ مہاتما گاندھی اور جوہر لال نہرو کو بھی پڑھا۔ بعض انگریزی کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے اس کا اعتراف کیا کہ “اداس نسلیں” کو بہت شعوری طور پر تاریخی ناول سمجھ کر نہیں لکھا اور ان کا خیال ہے کہ نہ ہی یہ تاریخی ناول ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بنیادی طور پر اس ناول کو ایک محبت کی کہانی Love Story سمجھ کر لکھا تھا اور آخر وقت تک ان کے ذہن میں یہی تصور تھا۔ یونیسکو نے اداس نسلیں کو انگریزی ترجمے کے لیے منتخب کیا۔ برطانیہ میں اپنے دورانِ قیام عبد اللہ حسین نے اداس نسلیں کا انگریزی ترجمہ The Weary Generations کے نام سے کیا تھا۔ اس کی اشاعت سے انگریزی حلقوں میں بھی اس کی خوب پزیرائی ہوئی۔ ہندوستان میں ہارپر کولنز اور پاکستان میں سنگ میل پبلی کیشنز نے اسے چھاپا۔ عبد اللہ حسین کی اصل پہچان ان کے پہلے ناول اداس نسلیں سے ہے جس کے اب تک پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ یہ ناول عالمی ادب کے معیار پر پورا اترتا ہے۔
اداس نسلیں کے بعد نشیب 1981ء میں منظرِ عام پر آئی جس میں پانچ افسانے اور دو ناولٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 1982ء میں باگھ، 1989ء میں قید، 1994ء میںرات، 1996ء میں نادار لوگ، نادار لوگ کا دوسرا حصہ بھی وہ لکھ رہے تھے اور اس کا نام بھی آزاد لوگ تجویز کرچکے تھے لیکن اسے مکمل نہ کرسکے، اب بس لکھا ہوا حصہ ہی منتظرِ اشاعت ہے۔ 2012ء میں چھ افسانوں پر مشتمل ایک مجموعہ فریب کے نام سے شائع ہوا۔
انگریزی میں انہوں نے Emigre Journeys کے نام سے ایک ناول لکھا جو شائع ہوچکا ہے، اس ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے افسانے واپسی کا سفر کی توسیعی اور تفصیلی شکل ہے۔ افغانستان کو موضوع بنا کر انہوں نے ایک ناول The Afghan Girl کے نام سے بھی انگریزی میں لکھا۔
تصانیف
ناول، ناولٹ
اداس نسلیں – (1963ء)
باگھ – (1982ء)
نادار لوگ – (1996ء)
Emigre Journeys – (2000ء)
The Afghan Girl
قید – (1989ء)
رات – (1994ء)
افسانے
نشیب – (1981ء)
فریب – (2012ء)
تراجم
The Weary Generations
(اداس نسلیں کا ترجمہ)
ڈاکٹر سلیم اختر نے بڑے پتے کی بات کی ہے: ” آج عبداللہ حسین بطور ناول نگار جس بلند مقام پر نظر آتا ہے وہ پبلک ریلیشننگ کی بدولت نہیں، نہ اس نے اپنے گروپ کی تشکیل کی اور نہ ہی وہ کسی گروپ کے سربراہ کا ادبی مزارع بنا بلکہ عبداللہ حسین جیسے سچ بولنے والے کی تو پبلک ریلیشننگ ہو ہی نہیں سکتی۔ “
عبد اللہ حسین کو ان کے ناول اداس نسلیں پر 1963ء میں آدم جی ادبی انعام ملا. 2012 میں اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن انعام دیا. عبد اللہ حسین خون کے کینسر میں مبتلا ہوکر 4 جولائی 2015ء کو 84 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔
(وکی پیڈیا)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں