“یومِ پاکستان زندہ باد” یقیناً آپ سب پہلی بار سن رہے ہوں گے لیکن اس بات سے ضرور واقف ہوں گے کہ 3 جون 1947ء کی شام آل انڈیا ریڈیو دہلی پر قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی نشری تقریر میں پہلی بار ہمارا قومی نعرہ “پاکستان زندہ باد” لگایا تھا اسی لیے اس دن کو میں نے “یومِ پاکستان زندہ باد” کہہ دیا ہے۔
یہ وہ تاریخ ساز دن ہے جب حکومتِ برطانیہ کی جانب سے تقسیم کا عملی منصوبہ پیش کیا گیا جس کا اعلان ایک ہفتے بعد 9 جون کو دہلی میں پیش کرکے منظور کیا گیا ۔ 3 جون پلان پر آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کو برطانوی وائسرائے لوئی ماؤنٹ بیٹن نے کابینہ مشن کی ناکامی کے بعد اپنا منصوبہ پیش کیا جس میں سکھ رہنما بلدیو سنگھ بھی شامل تھے۔ لوئی ماؤنٹ بیٹن یہ منصوبہ کچھ دن پہلے ہی لندن کے ہاؤس آف لارڈز سے منظور کرواکر لایا تھا جس کے بعد ہندوستان کی مکمل آزادی دے دی گئی ۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ کو اپنے مقبوضہ علاقوں میں شکست سے دوچار ہونے کے صاف آثار نظر آ رہے تھے کیونکہ ہٹلر اور مسولینی کی خون آشام پالیسیوں نے دنیا میں جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ لندن کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی تھی اس لیے اب ہندوستان ہی وہ برطانوی مقبوضہ ملک تھا جہاں کی فوجی قوت ایشیائی ممالک میں برطانیہ کا دفاع کرسکتی تھی۔ ہندوستانی فوجیوں نے اس جنگ کو پرائی جنگ سے سمجھتے ہوئے جنگ میں حصہ لینے سے انکار کردیا جس پر حالات سے تنگ برطانوی حکومت نے جنگ میں فتح کے بعد ہندوستان کو مکمل آزادی دینے کا وعدہ کیا ۔ ان دنوں تحریکِ پاکستان بھی زور پکڑچکی تھی اسی لیے ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں کی رجمنٹوں نے پاکستان کے نام پر جنگ میں شرکت کی۔ برما کا سب سے اہم معرکہ پنجاب رجمنٹ کی توسط سے لوئی ماؤنٹ بیٹن نے سر کیا اور وہ فاتح برما بننے کے ساتھ ساتھ 22 مارچ 1947ء کو ہندوستان کا آخری وائسرائے بن کر دہلی آیا جہاں 24 مارچ 1947ء کو اس نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا جس کے بعد اس نے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے ہندوستان کو برطانوی ڈومینیئن اسٹیٹ کے طور پر قائم رکھنے کی تجاویز دیں جسے کسی نے قبول نہیں کیا۔ قائد اعظمؒ نے یومِ راستِ اقدام کے دوران بنگال اور بہار میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی تفصیلات بتائیں جس کے بعد ماؤنٹ بیٹن نہ چاہتے ہقئے بھی تقسیم پر راضی ہوگیا۔ 18 مئی کو وہ دونوں فریقوں کے مطالبات لیکر لندن روانہ ہوا جہاں 28 مئی کو برطانوی شاہی فرمان نے اپنے دستخط ثبت کردیے اور ساتھ ساتھ وائسرائے کو مکمل اختیارات دے کر ہندوستان روانہ کردیا۔ 30 مئی 1947ء کو وہ ہندوستان پہنچا اور جہاں 2 جون کو اس نے مسلم لیگ اور کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ سکھ رہنما بلدیو سنگھ سے ملاقاتیں کیں۔
اس سے قبل دسمبر 1946ء میں قائدِ اعظمؒ نے وائسرائے ویول کو واضح کردیا تھا کہ اب مسلم لیگ کا مطالبہ اور منزل صرف و صرف پاکستان ہی ہے اسی لیے قائدِ اعظمؒ اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ اس اعلان میں برطانیہ نے دونوں فریقوں کی بات سننے کے بعد اس منصوبے کو پیش کیا جس پر موہن داس کرم چند گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے اعتراض کیا اور اس تقسیم جو “تشکیلِ پاکستان” تھی اس پر اپنی روایتی بنیا سوچ کے مطابق “دھرتی ماں کے ٹکڑے” سے تشبیہہ دی جبکہ قائدِ اعظمؒ اپنے مؤقف “تقسیم کرو اور جاؤ” پہ ڈٹے رہے تاہم قائدِ اعظمؒ نے پورا پنجاب، بنگال اور آسام بھی مانگا جس پر برہمنی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی اور وہ کانگریس جو “دھرتی ماں کے ٹکڑے” پر بے چین ہو رہی تھی اس نے پنجاب اور بنگال کو انگریز آقا ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ٹکڑے کروایا ۔۔۔!! اب وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ تقسیم نہ ہوتی تو بہتر تھا وہ کانگریس کے اس عمل سے ہی برہمنی اور سامراجی ذہنیت کا بخوب اندازہ لگا سکتے ہیں جس کے بعد بنگال اور پنجاب میں خونی فسادات ہوئے اور آسام اور بہار کے مسلم اکثریتی علاقوں کو بھی جدا کرکے وہاں خون کی ہولیاں کھیلی گئیں ۔ یہ میرے قائدؒ کا احسان ہے کہ انھوں نے اپنی ذہانت اور دور اندیشی سے گلچیں سے ہمیں باغ لیکر دیا اور آج ہم اسی کی آواز میں آواز ملا کر صدا لگاتے ہیں کہ “پاکستان زندہ باد ۔۔۔!”
قائدِ اعظمؒ کی جانب سے “پاکستان زندہ باد” کہنے کے بعد یہ نعرہ گلی گلی اور قریہ قریہ گونجنا شروع ہوا۔ 4 جون کو دہلی کے قرول باغ کے سامنے مسلمانوں نے جلوس نکالا تو اس کا مرکزی نعرہ ہی “پاکستان زندہ باد” تھا ۔ اسی دن شام میں ڈھاکہ میں بھی جلوس کی شکل میں دس ہزار مسلمانوں نے اس نعرے کو لگایا ۔ 7 جون 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو ڈھاکہ پر مشرقی بنگال کے معروف لوک گلوکار عباس الدین احمد نے فیاض ہاشمی کا تحریر کردہ اردو ملی نغمہ “زمیں فردوس پاکستان کی ہوگی زمانے میں” گایا تو اس کا آغاز بھی اسی نعرے سے ہوا اس طرح یہ نعرہ پہلی مرتبہ ملی نغمے کا حصہ بھی بنا۔ قیامِ پاکستان کے بعد “پاکستان زندہ باد” پر مشتمل یہ دو لفظ صرف الفاظ نہیں بلکہ اب ای عزم اور ملٌی احساس بن چکے ہیں جس کی صداؤں میں ہمارا عزم و حوصلہ سربلند رہتا ہے جس کے لیے ہر محبِ وطن پاکستانی یہی عزم کرتا ہے کہ 3 جون 1947ء کو قائدِ اعظمؒ کی زبان سے نکلے اس دعائیہ لفظ کو وہ اپنے پرچم کے ساتھ ساتھ صبحِ ابد تک باقی رکھے گا۔ ان شاء اللہ
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں