اسلام آباد(پی این آئی)سپریم کورٹ میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کیس کی سماعت کا آغاز ہوچکا ہے۔ کیس کی کارروائی براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کی جارہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کیس کی سماعت کررہے ہیں، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں سینیئر وکیل اعتزاز احسن سمیت متعدد درخواست گزاروں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو لاپتہ افراد کے درخواست گزار خوشدل خان ملک روسٹرم پر اور استدعا کی کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے، جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ جسٹس ر جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50 سال سےلاپتہ افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو، آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے بھی ریمارکس دیے کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
اس موقع پر درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا، ’آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں؟
شعیب شاہین بولے کہ لطیف کھوسہ کے فرزند گرفتار ہیں اسی لیے انہیں وکالت نامہ دیا گیا ہے۔ شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ ان کی درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا۔ شعیب شاہین نے دلائل دیے کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اُٹھایا گیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اپنی استدعا بتائیں، جس پر شعیب شاہین بولے لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کمیشن کب کا ہے، تب کس کی حکومت تھی۔ شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران کمیشن بنا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اعتزازاحسن اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں، کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں