اسلام آباد(پی این آئی)سپریم کورٹ کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سماعت کو جنوری تک ملتوی کر دیا گیا جبکہ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پھانسی کا فیصلہ سپریم کورٹ سے برقرار رہا، نظرثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی، جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس پر گیارہ سال سے زائد عرصہ بعد سماعت ہو ئی جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی ، جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس یحیحیٰ آفریدی، جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس حسن علی رضوی پر مشتمل 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس پر سماعت کی۔
ریفرنس پر سماعت کی عدالتی کارروائی میڈیا پر لائیو نشر بھی کی گئی ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے بنیچ کی تشکیل پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ براہ راست کارروائی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، صدراتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے یہ واپس نہیں لیا گیا، ایک سئینر ممبر بنیچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے، دو اور ججز نے ذاتی وجوہات پر معذرت کی اس کے بعد نو رکنی بنیچ تشکیل دیا گیا۔
بلاول کی فریق بننے کی درخواست
سماعت کے دوران پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی فریق بننے کی درخواست دی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہونے کے ناطے انصاف کیلئے درخواست کی، ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کیلئے کردار ادا کیا، ان کا قتل نظام انصاف پر دھبہ ہے۔
چیف جسٹس کی جانب سے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا گیا کہ کون سے صدر نے یہ ریفرنس بھیجا تھا ؟، جس پر انہوں نے بتایا کہ یہ ریفرنس سابق صدر آصف زرداری نے بھیجا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کے بعد کتنے صدر آئے ؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کے بعد دو صدور آ چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی صدر نے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ریفرنس مقرر نہ کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔
جسٹس منصور شاہ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں جس پر انہوں نے ریفرنس میں اُٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھے اور ریفرنس میں آصف زرداری کیس 2001 کا بھی حوالہ دیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بنیچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھیں۔
نسیم حسن شاہ کے انٹرويو کا حوالہ
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے نسیم حسن شاہ کے انٹرويو کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ انٹرویو کس کو دیا گیا تھا؟، جس پر پیپلز پارٹی کے وکیل اور رہنما فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ یہ انٹرویو افتخار احمد کو دیا گیا، دو انٹرویوز کا ذکر کیا گیا ہے دوسرا انٹرویو کس انجان کو دیا گیا، دوسرے انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کہا کہ مارشل لاء والوں کی بات ماننا پڑتی ہے۔
احمد رضا قصوری
دوران سماعت احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے اور انہوں نے بھی نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا حوالہ دیا جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے ریفرنس پر اُٹھائے گئے قانونی نکات بھی پڑھے جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر پاکستان کے ریفرنس میں اس وقت نمائندگی کس نے کی تھی ؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت بابر اعوان نے نمائندگی کی تھی، چیف جسٹس نے ان کی عدالت میں موجودگی بارے استفسار کیا جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بابر اعوان کا لائسنس اس وقت معطل ہو گیا تھا ، وہ اس وقت کی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے۔
ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا تھا، احمد رضا قصوری
احمد رضا قصوری دوبارہ روسٹرم پر آئے اور انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایاگیا تھا، بابر اعوان اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا اس میں ضمنی ریفرنس بھی آیا تھا جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متفرق درخواست کے ساتھ اور بھی چیزیں آئی تھیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے معروف قانون دان علی احمد کرد سے استفسار کیا کہ کیا آپ معاونت کریں گے ؟ جس پر انہوں نے کہا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔
مخدوم علی خان اور اعتزاز احسن کے معاونین وکلاء پیش
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران مخدوم علی خان اور اعتزاز احسن کے معاونین وکلاء بھی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے موقف اختیار کیا کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کیس میں ہیں یا نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہ عدالتی معاون تھے ہم کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اعتزازاحسن اس کیس میں آئیں گے ؟ جس پر ان کے معاون نے بتایا کہ اعتزازاحسن وکیل بھی ہیں بطور معاون نہیں آئیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قاضی اشرف بھی اس کیس میں معاون تھے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ قاضی اشرف تندرست ہیں اور پریکٹس کر رہے ہیں۔
کیس کا اصل ریکارڈ ملا ؟
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ ملا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اصل ریکارڈ نہیں ملا تھا جبکہ فاروق نایئک نے بتایا کہ ریکارڈ میں تین بنڈل آئے تھے۔
فاروق نائیک نے بتایا کہ کیس میں جو شکایت دائر ہوئی تھی اس کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا تھا، عدالت نے حکم نامے میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو سارا ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو ٹریبونل بنایا تھا اس کا کیا نام تھا جس پر فاروق نائیک نے بتایا کہ ٹریبونل نے دیکھنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات درست تھے یا نہیں،
ٹریبونل نے مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا
فاروق نائیک نے بتایا کہ ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا، اب اس ٹریبونل کا ریکارڈ کہاں ہے، چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ریفرنس کھبی نہ سنا جائے تو اعتراض اٹھاتے رہیں، ہمارے سامنے وہ بات کریں جو سامنے موجود ہے، ایسا کرنا ہے تو ایک درخواست دے دیں کہ کس کس کو احکامات دیئے جائیں۔
جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ شفیع الرحمان ٹریبونل رپورٹ کو پبلک کیا تھا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پھانسی کا فیصلہ سپریم کورٹ سے برقرار رہا، نظرثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی، اٹارنی جنرل آپ ہمیں اب اس ریفرنس کے قابل سماعت ہونے ہر مطمئن کریں، آپ ہمیں بتائیں آرٹیکل 186 کے تحت قانونی سوال کیا ہے، جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے۔
ہم اس معاملے کو دوبارہ کیسے کھولیں
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ قانونی نقطہ کیا ہے ہم اس معاملے کو دوبارہ کیسے کھولیں، یہ آسان معاملہ نہیں ہے ایسے تو ہمارے مقدمات میں ہی صدر ریفرنس بھیجنے لگیں گے جبکہ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم نے تو صرف ریفرنس پر رائے دینی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں