کراچی(آئی این پی)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے ساتوں انڈسٹریل ٹاؤن ایسوسی ایشنز اور ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کے ساتھ مل کر حکومت سے گیس ٹیرف کو 1350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک لانے کی پرزور اپیل کی ہے جس کا تعین اوگرا نے 100 فیصد گیس کی لاگت کے طور پر کیا تھا لیکن سبسڈی نہیں دیں گے۔
یہ مطالبہ کراچی چیمبر کے صدر افتخار احمد شیخ کی صدارت میںمنگل کو کراچی چیمبر میں مشترکہ پریس کانفرنس میں تاجر و صنعتکار برادری کے نمائندوں نے کیا۔اس موقع پر وائس چیئرمین بزنس مین گروپ انجم نثار، جاوید بلوانی، سینئر نائب صدر الطاف اے غفار، نائب صدر تنویر احمد باری اور سابق صدر محمد طارق یوسف کے علاوہ انڈسٹریل ٹائون ایسوسی ایشنز اور ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنر کے صدور، نمائندے بھی موجود تھے جن کے مطابق گیس کے نرخوں میں حالیہ بے تحاشہ اضافہ اچھے نتائج کی توقعات کی امید پر اختیار کی گئی ناقص منصوبہ بندی اور نا عاقبت اندیش اقدامات کی وجہ سے کہیں مزید پریشانیوں میں مبتلا کرنے کی وجہ نہ بن جائے۔ وائس چیئرمین بی ایم جی جاوید بلوانی نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کہانی کا اختتام نہیں ہوگا کیونکہ اس کے بعد تمام ٹائون ایسوسی ایشنر میں پریس کانفرنس منعقد کی جائیں گی اور تمام ٹائون ایسوسی ایشنز کے دفاتر میں احتجاجی بینرز لگائے جائیں گے جبکہ ہفتے میں ایک روز” نو ایکسپورٹ ڈے” کا بھی آغاز کیا جائے گا۔ اگر حکومت نے تاجر برادری کے مطالبے پر توجہ نہ دی تو شہر بھر میں احتجاجی بینرز لگا کر اور نو ایکسپورٹ ڈے کا دورانیہ دو دن یا پھر تین دن تک بڑھا کر احتجاج میں شدت لائی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کی جانب سے گیس نرخوں میں کمی کے اعلان کا دسمبر کے پہلے ہفتے تک انتظار کریں گے تاہم اگر ایسا نہیں ہوا تو ہمارے پاس احتجاج میں مزید شدت لانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری اب بھی بجلی کی اضافی کھپت کے وعدے کے مطابق موسم سرما پیکج متعارف کرانے کا انتظار کر رہی ہے جس میں سردیوں کے چار مہینوں کے دوران اضافی کھپت پر 20 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ نئے گیس ٹیرف میں صنعتوں پر کراس سبسڈی کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کیونکہ اس میں کھاد، گھریلو اور پاور سیکٹر کو غیر مستحق اور غیر منصفانہ مدد دی گئی ہے۔انڈسٹری 1350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے منصفانہ گیس ٹیرف کا مطالبہ کرتی ہے لیکن 2100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے ناقابل برداشت گیس ٹیرف کو کبھی قبول نہیں کرے گی جو ڈومیسٹک اور فرٹیلائزر سیکٹرز کو خوش کرنے اور ملک کے صنعتی شعبے کو خوفناک سزا دینے کے لیے بڑھایا گیا ہے۔انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پڑوسی ملک میں کھاد کے شعبے کے لیے گیس ٹیرف 6.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جبکہ پاکستان میں اس مخصوص شعبے کو گیس بہت کم قیمت پر فراہم کی جا رہی ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو سالانہ تقریباً 40 ارب روپے کا منافع کماتا ہے اور اسے گیس ٹیرف میں سبسڈی بھی ملتی ہے جو عجیب سی بات ہونے کے ساتھ ساتھ کسی کی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات قابل تشویش ہے کہ پاکستان میں رعایتی دام پر ملنے والی گیس سے تیار کی جانے والی کھاد کو اسمگل کردیا جاتا ہے جو گیس کو اسمگل کردینے کے مساوی ہے کیونکہ یہ شعبہ کھاد کی پیداوار کے لئے گیس کا بڑا حصہ استعمال میں لاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ آر ایل این جی پر سبسڈی کا 95 فیصد ایس این جی پی ایل نیٹ ورک میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں آر ایل این جی کی کھپت 800 سے 1000 ایم ایم سی ایف ڈی کے درمیان ہے جبکہ ایس ایس جی سی کی حدود میں صرف 50 ایم ایم سی ایف ڈی استعمال کی جارہی ہے اس کے باوجود ایس ایس جی سی سے منسلک صنعتوں پر دوسرے شعبوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کراس سبسڈی کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ۔دنیا میں کہیںبھی برآمدی اور درآمدی متبادل صنعتوں پر دوسرے شعبوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کراس سبسڈی کا بوجھ نہیں ڈالا جاتا ہے اور انہیں لاگت کم کرنے کے لئے سہولت فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔کراچی چیمبر کے صدر افتخار احمد شیخ نے کہا کہ گیس کی سپلائی بڑھانے کے طریقے تلاش کرنے پر توجہ دینے کے بجائے حکومت موجودہ گیس کی سپلائی کو صارفین کے ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر تبدیل کرنے اور ٹیرف کو مکمل طور پر ناقابل برداشت حد تک بڑھانے پر غور کر رہی ہے جو کہ خالصتاً پاکستان کے آئین کی روح کے خلاف اور آرٹیکل 158 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ صنعتی اور کیپٹیو گیس ٹیرف میں 100 سے 130 فیصد اضافہ معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا کیونکہ یہ صنعتوں کی بندش اور لیبر فورس کی بڑے پیمانے پر چھانٹی کا باعث بنے گا جس کے نتیجے میں امن و امان کی سنگین صورتحال پیدا ہوگی جس میں اسٹریٹ کرائمز میں تیزی سے اضافہ ہوگا جبکہ مینوفیکچرنگ یونٹس کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے۔گیس ٹیرف میں اضافے کا غیر دانشمندانہ اقدام ویلیو ایڈڈ برآمدات کو بری طرح متاثر کرے گا اور صنعتکاروں کے پاس خام مال برآمد کرنیکے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا جس سے حریفوں کو پاکستان کی ویلیو ایڈیڈبرآمدات کا شیئر بٹورنے کا ایک بہترین موقع مل جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کی صنعتوں کو پہلے ہی پانی کے سب سے زیادہ ٹیرف، یوٹیلیٹیز کی سپلائی میں رکاوٹ اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے اضافی لاگت کے سبب بے انتہا پیداواری لاگت کا سامنا ہے لہٰذا حکومت فوری طور پر گیس میں اضافے کو واپس لیتے ہوئے اسے 1350روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی قابل قبول سطح پر لائے۔مجموعی صورتحال کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں کراچی کی تمام صنعتیں مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں، تاجر و صنعتکار برادری کے نمائندوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت مزید وقت ضائع کیے بغیر تاجر برادری کی درخواست کا نوٹس لے گی اور گیس ٹیرف کو قابل قبول سطح پر لانے کا اعلان کرے گی۔پریس کانفرنس میںکراچی چیمبر، سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، لانڈھی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن، پاکستان نٹ ویئر اینڈ سویٹر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان، پاکستان کلاتھ مرچنٹس ایسوسی ایشن، پاکستان کاٹن فیشن اپیرل مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن، پاکستان بیڈ ویئر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن اور پاکستان ڈینم مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدور اور نمائندوں نے شرکت کی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں