گلوبل ٹیچر ایوارڈ جیتنے والی پاکستانی ٹیچر کون نکلیں؟ مکمل تفصیلات

اسلام آباد (پی این آئی) گوجرانوالا سے تعلق رکھنے والی رفعت عارف نے 2023 ء کا گلوبل ٹیچر ایوارڈ جیت لیا ہے۔ رفعت عارف کو سسٹر زیف کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ ایک معروف استاد، کلائیمیٹ ایکٹیوسٹ اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ماہر ہیں۔ سسٹر زیف کو دنیا بھر سے دس بہترین اساتذہ کے ساتھ اس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ انہوں نے 8 نومبر کو پیرس میں ہونے والی ایک پر وقار تقریب میں یہ ایوارڈ وصول کیا جس کے ساتھ انہیں ایک ملین ڈالر کی خطیر رقم بھی دی گئی ہے۔ انعام کی یہ رقم کئی سال ان کی کارکردگی جانچنے کے بعد قسطوں میں دی جائے گی۔

سفر کا آغاز کیسے ہوا؟ رفعت عارف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کا تعلق گوجرانوالہ کے ایک غریب گھر انے سے ہے۔ ان کے والدین پرائیویٹ اسکول کی فیس ک۔ے متحمل نہیں تھے اور سرکاری اسکول سے وہ بہت دلبرداشتہ ہو چکی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ 1997 ء میں جب ان کی عمر محض 13 برس تھی تب ایک روز وہ استاد کی غیر موجودگی میں ان کی کرسی پر کھڑے ہو کر استاد کے کردار پر تقریر کر رہی تھیں۔ اس دوران ان کی استاد جن کا نام شاید ساجدہ تھا کلاس میں وارد ہوگئیں ۔ رفعت بتاتی ہیں کہ انہوں نے نا صرف انہیں تھپڑ مارا بلکہ پوری کلاس کے سامنے بے عزت بھی کیا۔ اس واقعہ سے وہ اس قدر دلبرداشتہ ہوئیں کہ انہوں نے اسکول جانا ہی چھوڑ دیا۔ چونکہ پرائیویٹ اسکولوں کی فیس بہت زیادہ تھی سو رفعت نے گھر پر تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی اپنے گھر کے صحن میں ایسے بچوں کو پڑھانا شروع کیا جن کے والدین اسکول فیس نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے مطابق 26 سال بعد کھلے صحن اور چٹائی سے شروع ہونے والا یہ اسکول ایک بڑی عمارت میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں مستحق غریب گھرانوں کے 200 سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ چھبیس برس کے سفر میں کن مسائل کا سامنا رہا ؟ رفعت عارف بتاتی ہیں کہ 13 برس کی عمر میں انہوں نے اپنے مشن کا آغاز کیا تھا کہ بچوں کو عزت اور محبت کے ساتھ تعلیم دی جانی چاہیے۔ اس سفرمیں انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا رہا۔ والدین کو یہ سمجھانا بہت مشکل تھا کہ سرکاری اسکولوں میں بے جا مار پیٹ بچوں کی عزت نفس کو بری طرح مجروح کرتی ہے۔ ابتدا میں رفعت نے اپنے گاؤں میں پوسٹرز اور پمفلٹ تقسیم کیے اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنے بچوں کو اُس اسکول میں بھیجیں جہاں انہیں مفت معیاری تعلیم دی جاتی ہو۔ کیونکہ ان کی عمر بہت کم تھی تو لوگ عموماً ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے مگر انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا ۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہر اتوار کو وہ اپنی والدہ کے ساتھ گھر گھر جا کروالدین کو سمجھانے کی کوشش کرتی تھیں کہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کتنی ضروری ہے۔ لیکن اکثر مائیں ان کی بات سنے بغیر ہی گھر سے انہیں نکال دیتی تھیں لیکن راستے کی یہ مشکلات کبھی ان کے عزائم میں رکاوٹ نہیں بن سکیں۔ رفعت عارف مزید بتاتی ہیں کہ 26 برس میں لا تعداد بچوں کو پڑھانے کے ساتھ انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ اپنی تعلیم اور اسکول کی ضروریات پورا کرنے کے لیے آٹھ گھنٹے کی جاب بھی کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے پولیٹیکل سائنس اور تاریخ میں ڈبل ماسٹرز کیا ہوا ہے اور یونیورسٹی آف سول کے علاوہ ورلڈ وائڈ وومن اور ورلڈ پلس کے ساتھ بھی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں بنیادی نقائص کیا ہیں؟ رفعت عارف بتاتی ہیں کہ دیگر متعدد عالمی اعزازات کے علاوہ وہ ورلڈ وائڈ وومن کمیونیٹی فیس بک پیج کی تین سال تک ایڈمنسٹریٹر رہ چکی ہیں جس سے انہیں بین الاقوامی کمیونٹی میں ایک متحرک ماہر تعلیم کی حیثیت سے شناخت ملی۔ اس دوران انہوں نے مختلف ویب سائٹس پر پاکستانی خواتین کو درپیش مسائل پر بلاگز بھی لکھے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی تعلیمی نظام پرائمری لیول سے ہی کمزور ہے۔ سرکاری سکولوں میں مار پیٹ اور بے جا سختی کا جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہ بچوں کو سکول اور تعلیم سے بیزار کردیتا ہے۔ بچوں کی عزت نفس متاثر ہونے سے وہ مستقبل میں عملی میدان میں بھی اعتماد کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ رفعت بتاتی ہیں کہ تعلیم ان کے دل کے بہت قریب ہے کیونکہ صرف اسی طرح آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نےلڑکیوں کی تعلیم کے لیے 13 برس کی عمر سے آواز اٹھانا شروع کی جب وہ خود بھی مکمل با شعور نہیں تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے آس پاس گھریلو تشدد کا شکار خواتین تھیں یا ایسی بچیاں تھیں جو اسکول جانے کی عمر میں بیاہ دی گئیں تھیں اور ماں بھی بن چکی تھیں۔ ایسی لڑکیاں ساری عمر جسمانی اور ذہنی مسائل کا شکار رہتی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہوتا۔ رفعت آج ایسی لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کی ایک مؤثر آواز ہیں۔ ان کا قائم کردہ فلاحی ادارہ ”زی وی‘‘ یا ”زیڈ ڈبلیو ای ای فاؤنڈیشن‘‘ گوجرانوالہ کے گیارہ دیہات میں تقریباً دو سو لڑکیوں کو بارہویں جماعت تک مفت تعلیم دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ادارہ ووکیشنل ٹریننگ اور مالی امداد کے ذریعے خواتین کو خود مختار اور مالی طور پر مستحکم ہونے میں بھی مدد دیتا ہے۔ کون سے بڑے چیلنجز کا سامنا رہا؟ رفعت عارف بتاتی ہیں کہ مسیحی اقلیت سے تعلق رکھنے کے باعث انہیں کئی دفعہ تخریب کاری کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ انہیں کہا گیا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے اسلام آباد منتقل ہوجائیں۔ مگر انہوں نے تمام چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھا ۔ رفعت کے مطابق انہیں گلوبل ٹیچر ایوارڈ کے ساتھ ایک ملین ڈالر کی جو رقم دی جائے گی وہ اس سے دس ایکڑ رقبے پر ایک اسکول قائم کرنا چاہتی ہیں جہاں ملک بھر سے نادار اور مستحق گھرانوں کے بچوں کو بلا امتیاز اور مفت معیاری تعلیم دی جائے گی۔ گلوبل ٹیچر ایوارڈ کیا ہے؟ گلوبل ٹیچر ایوارڈ ہر برس دنیا بھر سے تعلیم کے میدان میں شاندار خدمات سر انجام دینے والےاستاد کو دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا انعقاد ”ورکی فاؤنڈیشن‘‘، یونیسکو اور دبئی کیئرز فاؤنڈیشن کے تعاون سے ہوتا ہے۔ آٹھویں گلوبل ٹیچر ایوارڈ کی تقریب فرانس میں یونیسکو کے ہیڈ کوارٹرز میں منعقد ہوئی جس کے میزبان اداکار اسٹیفن فرائی تھے۔ یہ دنیا بھرمیں تعلیم کے میدان میں دیا جانے والا سب سے بڑا ایوارڈ تصور کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں