سابق وزیراعظم کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا

ڈھاکہ (پی این آئی) بنگلہ دیش کی علیل اور اپوزیشن کی سب سے اہم رہنما اور دو مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے والی خالدہ ضیا کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔

غیر ملکی خبرایجنسی کے مطابق سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے وکیل قیصر کمال نے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 78 سالہ سابق وزیراعظم کو بیرون ملک جانے سے روکنا سیاسی انتقام ہے۔جنوری کے آخر میں بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہوں گے۔ کئی مغربی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملک میں سیاسی ماحول پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔2008 میں خالدہ ضیا کو کرپشن کے الزام میں 17 برس قید کی سزا ہوئی تھی۔ گھر پر نظر بند ہونے سے قبل انہوں نے دو سال جیل میں گزارے۔ انہوں نے اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔سابق وزیراعظم کے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اگست کے اوائل سے خالدہ ضیا جگر کی بیماری، سانس لینے میں دشواری اور ذیابیطس کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں اور ان کو دل کی بیماری، جوڑوں اور گھٹنے میں بھی تکلیف ہے۔گذشتہ ماہ خالدہ ضیا کے خاندان نے حکومت کو ایک خط لکھا تھا جس میں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اپیل کی گئی تھی۔اتوار کو وزیر قانون انیس الحق نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ان کی درخواست مسترد کر دی ہے اور جیل سے رہائی کے ایگزیکٹیو آرڈر نے انہیں سیاست میں حصہ لینے اور طبی دیکھ بھال کے لیے بیرون ملک جانے سے روک دیا ہے۔

وزیر قانون نے مزید کہا کہ ’درخواست پر دوبارہ غور نہیں کیا جا سکتا۔‘انیس الحق کا کہنا تھا کہ حکومت کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لیے نئی ہدایت پر نظر ثانی سے قبل موجودہ ایگزیکٹیو آرڈر کو منسوخ کرنا پڑے گا۔ یعنی خالدہ ضیا کو پہلے جیل واپس جانا پڑے گا اور پھر درخواست دینا ہو گی۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے وکیل قیصر کمال نے حکومتی فیصلے سے متعلق کہا کہ خالدہ ضیا کو قانون کی ایک شق کے تحت مشروط رہائی کی اجازت دی گئی تھی اور اسی شق کے تحت ان کو بیرون ملک علاج کرانے کے لیے جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔گزشتہ ہفتے بی این پی کے لاکھوں حامیوں نے خالدہ ضیا کے خلاف حکومتی اقدامات پر احتجاج کیا تھا۔2022 سے بی این پی اور اس کے اتحادیوں نے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور شیخ حسینہ واجد سے استعفے اور نگراں حکومت کا مطالبہ کر رہے ہیں جو انتخابات کی نگرانی کر سکے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں