سپریم کورٹ میں 2 خواجہ سراء ملازم ہیں، یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ کون ہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد(آئی این پی)سپریم کورٹ نے انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ ملازمین کی تفصیلات تک رسائی کے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو ٹرانسجینڈر ملازم سپریم کورٹ میں کام کرتے ہیں، یہ معلومات نہیں دی جاسکتیں کہ ٹرانسجینڈر ملازمین کون ہیں۔انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے ملازمین کے ریکارڈ تک رسائی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ معلومات فراہم کرنے کی حد درخواست مقرر کرسکتا ہے، آئین ذاتی معلومات کے تحفظ کا امین ہے، آرٹیکل 19 اے سے سپریم کورٹ مبرہ نہیں ہے، سپریم کورٹ انفارمیشن دینے کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کے خلاف رٹ پٹیشن بھی دائر نہیں ہوسکتی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم اپنی روایت کا فیصلہ کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے،کل کمیشن سپریم کورٹ کے ججز کی فیملی کی معلومات پبلک کرنیکا کہہ دے تو کیا ہوگا؟ کیا پھر وہ آرڈر بس نظر انداز کر دیں گے یا چیلنج ہوگا؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بات پر آمادہ نہیں ہوں کہ رجسٹرار آفس سپریم کورٹ سے الگ یا مختلف ہے، اگر فل کورٹ اجلاس میں رجسٹرار کو انفارمیشن دینے سے منع کر دیا جائے تو کیا ہوگا؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انفارمیشن کمیشن سپریم کورٹ کو حکم نہیں دے سکتا، ممکن ہے سپریم کورٹ کے ملازمین سے متعلق معلومات رضاکارانہ طور پر دے دیں، یہ معلومات دے سکتے ہیں کہ دو ٹرانسجینڈر ملازم سپریم کورٹ میں کام کرتے ہیں، یہ معلومات نہیں دی جاسکتیں کہ ٹرانسجینڈر ملازمین کون ہیں۔عدالت نے درخواست گزار مختار احمد اور اٹارنی جنرل کو تحریری جوابات دو ہفتے میں جمع کرانیکا حکم دیتے ہوئے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔خیال رہے کہ درخواست گزار شہری مختار احمد نے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت تفصیل مانگی تھی کہ سپریم کورٹ کے ملازمین، خواتین، ٹراسجینڈر اور معذور ملازمین کی تعداد اور تنخواہیں کتنی ہیں۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close