لاہور (پی این آئی) قانونی ماہرین کے مطابق ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا فیصلہ درست اور تاریخی ہے، ماہرین کے مطابق آئین کی شق میں عام قانون سازی سے ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کے حوالے سے جاری کیے گئے فیصلے پر ملک کے کئی ممتاز اور سینئر قانونی ماہرین کی جانب سے ردعمل دیا گیا ہے۔ اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر قانون دان لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا فیصلہ درست اور تاریخی ہے، حکومت کی جانب سے لایا جانے والا یہ ایکٹ بدنیتی پر مبنی تھی۔ جبکہ دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے سابق جج اور سینئر قانون دان جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی جانب سے ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا کہ آئین کی شق میں عام قانون سازی سے ترمیم نہیں کی جا سکتی، اس لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے۔ نامور وکلاء فیصل چوہدری اور سعد رسول کی جانب سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ آئین کی شق میں عام قانون سازی سے ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
واضح رہے کہ جمعہ کے روز عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا گیا ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کے خلاف ہے جس کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتا، جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی متفقہ فیصلے کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے 87 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے اختیار کو انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے اور ایک قانون کو اس وقت کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب اس کی شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں۔ فیصلے کے مطابق ریویو آف ججمنٹ آئین پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔ ہم نے آئین کا تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اسطرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو، اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا، سائیلن سپریم کورٹ سے رجوع کرنا شروع کر دیں گے اس بات کو سامنے رکھے بغیر کہ جو فیصلے دئیے گئے ان پر عملدرآمد بھی ہو چکا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس منیب اختر کا نوٹ بھی شامل جو کہ 30 صفحات پر مشتمل ہے۔ جسٹس منیب اختر نے اپنی اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ مختلف فیصلوں کا جائزہ لینے سے تین اہم نکات سامنے آتے ہیں، پہلے نکتے کے مطابق نظرثانی اپیل نہیں ہو سکتی، دوسرا نکتہ مقدمات کے حتمی ہونے کا ہے اور تیسرا اہم نکتہ نظر ثانی کے محدود ہونے کا ہے۔ نوٹ میں لکھا ہے کہ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کا سیکشن 2 آئین کے آرٹیکل 185 کے مطابق نہیں، کیا پارلیمان کی طرف سے ہدایت کی جا سکتی کہ نظرثانی کو اپیل جیسا سمجھا جائے؟ اصول ہے عدالت میں پہلے سے طے ہو چکا معاملہ دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا، نظرثانی کا دائرہ اختیار اسی اصول کے ساتھ جڑا ہے۔
اضافی نوٹ میں مزید لکھا ہے کہ سیکشن 2 میں دیا گیا اپیل کا حق آئین کے آرٹیکل 188 کے بر خلاف ہوگا اور موجودہ ایکٹ کے بعد 184 کے مقدمات کبھی بھی فل کورٹ نہیں بن سکے گا، اہم مقدمات میں فل کورٹ کی تشکیل نہ ہونا سپریم کورٹ کے انتہائی اہم اصول کو ختم کرتا ہے۔ جسٹس منیب نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس کا بنچ کی تشکیل کا اختیار انصاف کی فراہمی کے لیے اہم ہے، ایکٹ کا سیکشن 2 اور 3 آئین کے ایک سے زائد آئینی اصولوں کے بر خلاف ہے، ایکٹ کے سیکشن 3، 2 آئین کے آرٹیکل 188 میں دیے اختیار سے بھی متصادم ہیں، آج کے فیصلے کا ریویو آئندہ پارلیمنٹ میں ہی ہو گا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلے کے لیے عدالت نے فریقین کو الیکٹرانک نوٹس بھجوائے گئے تھے۔ یاد رہے کہ 19 جون کو چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال،جسٹس منیب اختر اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے کیس کی 6 سماعتیں کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعتیں کیں، درخواست گزاروں نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کےخلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی تھی، درخواست گزارپی ٹی آئی نے اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم لازم قرار دینے کا مدعا پیش کیا تھا۔ ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا، اپیل سننے والے بنچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سننے والے ججز سے زیادہ ہونا لازم ہے تاہم پی ٹی آئی سمیت انفرادی حیثیت میں وکلاء نے اس ایکٹ کو چیلنج کیا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں