وزیراعظم شہباز شریف نے سائفر شائع ہونے سے متعلق بڑا سوال کھڑا کر دیا

اسلام آباد (پی این آئی) وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ اگر سائفر گم ہوگیا تھا تو پھر شائع کیسے ہوگیا؟سائفر گم کیسے ہوا، چھپ کیسے گیا؟ اس کی انکوائری ہونی چاہیے، چیئرمین پی ٹی آئی سائفر ساتھ لے کر گئے جو بہت بڑا جرم ہے۔

انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم امپورٹڈ حکومت ہوتے تو ہر جگہ سے ریلیف مل رہا ہوتا، جو واقعات ہوئے امریکی سازش کے ہوا میں اڑ گئے، ہمارے لئے کسی غیرملکی اشارے پر حکومت بننے سے بہتر مرجانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ سائفر گم ہوگیا ہے، اگر سائفر گم ہوگیا تھا تو پھر شائع کیسے ہوگیا؟سائفر گم کیسے ہوا، چھپ کیسے گیا؟ اس کی انکوائری ہونی چاہیے۔ وزیراعظم سائفر کی کاپی پڑھ سکتا ہے ساتھ نہیں لے جاسکتا۔ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر ساتھ لے کر گئے جو بہت بڑا جرم ہے۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف اگلے مہینے واپس آجائیں گے،نوازشریف واپس آکر قانون کا سامنا کریں گے، نوازشریف نہ سر پر بالٹی پہنیں گے اور نہ ہی جادو ٹونا کریں گے۔ اگر نوازشریف وزیراعظم بنے تو کارکن بن کر خدمت کروں گا۔ مزید برآں وزیراعظم شہبازشریف نے ٹویٹر پر اپنے نقطہ نظر میں کہا کہ میری تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وفاقی کابینہ کا وجود ختم ہو گیا ہے۔ عدم اعتماد کے آئینی عمل کے ذریعے اتحادی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے گزشتہ 16 ماہ کا جائزہ لے کر قوم کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

جمہوری ارتقاء کا ایک عمل، جن سیاسی جماعتوں نے حکومت تشکیل دی، ان کے سیاسی منشور اور ایجنڈے مختلف ہیں۔ سیاسی حریف ہونے کے باوجود ہم نے ریاست اور عوام کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے قومی ایجنڈے پر مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا جو ہم سب کا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ پچھلے سولہ مہینوں کے دوران ہم نے اتفاق رائے سے فیصلے کرنے کی روایت کو پنپتے ہوئے دیکھا، میں اسے اپنے ملک کے جمہوری ارتقا میں ایک اہم پیش رفت سمجھتا ہوں۔ چیلنجز: اول، کچھ بحران ایسے تھے جو ذاتی طور پر میرے لئے راتوں کی نیند اڑا دینے والا ایک بڑا چیلنج تھے، ان بحرانوں میں بالخصوص ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا اور بالعموم ملکی معیشت کو مستحکم کرنا شامل تھا۔ میں خود کو ہرگز معاف نہ کرپاتا اگر خدانخواستہ میرے دور میں ڈیفالٹ کی صورتحال پیدا ہوجاتی۔ ہمیں اب بھی عالمی ذمہ داریاں پورا کرنے میں ناکام ہونے والے ممالک میں بھیانک نتائج کو مکمل طور پر سمجھنا ہوگا۔ دوئم، اقوام عالم میں ایک قابل اعتماد شراکت دار اور دوست کے طور پر پاکستان کے وقار، عزت اور ساکھ کو بحال کرنا ایک بڑا چیلنج تھا جس سے ہم اجتماعی طور پر نبردآزما ہوئے۔ ہماری اجتماعی کوششوں کی بدولت پاکستان کو پہنچنے والے بڑے پیمانے پر نقصان کا ازالہ ممکن ہو سکا ہے اور پاکستان عالمی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر سامنے آیا ہے۔

ہم نے اپنے برادر ممالک بشمول چین، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اعتماد کو بحال کیا ہے۔ CPEC کو نہ صرف دوبارہ پٹڑی پر ڈالا بلکہ اس کے دوسرے مرحلے پر بھی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ تباہ کن سیلاب کے باعث ہونے والے انسانی اور مادی نقصانات کی صورت میں پہلے سے شدید مشکلات کا شکار ہماری معیشت کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ موسمیاتی سفارت کاری سے حکومت نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ملک کے طور پر پیش کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر عالمی کوششیں شروع کیں۔ ہم نے اپنے وسائل سے بڑے پیمانے پر امداد، بحالی اور تعمیر نو کی سرگرمیاں شروع کیں۔ جی ۔ 77 پلس چائنہ کے سربراہ کے طور پر پاکستان نے ماحولیاتی انصاف کی فراہمی کے اپنے تقاضے کے لئے عالمی کوششوں کی قیادت کی۔ اس ضمن میں ہمارے اہم کردار نے عالمی ردعمل کو تقویت بخشی اور COP27 میں Loss and Damage Fund قائم ہوا۔ لاکھوں ڈالر کی بین الاقوامی امداد انتہائی شفاف طریقے سے خرچ کی گئی۔

ایس آئی ایف سی ۔ آگے بڑھنے کا راستہ: باہمی تعاون کے تحت قائم کردہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) نے قومی معیشت کے پانچ اہم شعبوں کو ترجیح دی ہے، یعنی زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی و معدنیات، دفاعی پیداوار اور توانائی۔ اس ادارہ جاتی انتظام میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی موجود ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لئے ‘ون ونڈو’ کی سہولت فراہم کرتا ہے تاکہ منتخب شعبوں میں مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ ایس آئی ایف سی معاشی بحالی کا منصوبہ ہے جس پر مکمل غور و خوض کیا گیا اور اس پر مکمل حکومتی لائحہ عمل کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔ ان سولہ ماہ کے دوران جس چیز نے مجھے شدید دباؤ میں رکھا، وہ آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط، بین الاقوامی منڈیوں میں اشیاء کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اور جغرافیائی و سیاسی ہلچل جیسے عوامل کے مجموعی طور پر پاکستان کے غریب عوام پر پڑنے والے اثرات تھے۔ ہم نے اس صورتحال میں ایک توازن اپنا کر عوام پر بوجھ کم کرنے کی کوشش کی، مجھے ان کے مصائب اور مشکلات کا پوری طرح احساس ہے۔ کسی بھی حکومت کے لئے معاشرے میں ابھرتی ہوئی تقسیم اور سیکورٹی خطرات سے بڑھ کر اور کوئی مشکلات نہیں ہو سکتیں۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر توجہ دیتے ہوئے معاشی عدم استحکام کا خاتمہ کیا جائے۔

پورے یقین سے کہتا ہوں کہ جادو کے کسی چراغ سے یہ سب نہیں ہوگا کہ راتوں رات سب بدل جائے۔ لیکن گر پاکستان کے عوام پاکستان مسلم لیگ (ن) کو منتخب کرتے ہیں تو ہمارا وعدہ ہے کہ آپ کی منتخب حکومت عوامی قیادت میں ترقی کے اس ماڈل پر عمل یقینی بنائے گی جس میں ان کی فلاح و بہبود ہی سب کچھ ہو۔ ہمارا معاشی انقلاب نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم فراہم کر کے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے ہوگا جس سے بڑے پیمانے پر روزگار پیدا ہو گا اور جدید زرعی صنعت فروغ پائے گی۔ اگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ کام، کام اور بس کام۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں