نواز شریف پاکستان واپس آتے ہی عدالت میں کیسے پیش ہوں گے؟ مسلم لیگ (ن) نے حکمت عملی تیار کرلی

لاہور(پی این آئی) وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ نوازشریف واپسی پر حفاظتی ضمانت لے کر عدالت میں پیش ہوں گے،عدالت میں کیسزکے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوگی۔

نوازشریف کو سازش کے تحت عملی سیاست سے الگ کیا گیا،بری ہونے پرسیاسی پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اختیار والی بات غلط فہمی پر مبنی ہے، کہ شاید یہ اختیار حکومت کا تھا، لیکن یہ اختیار حکومت کا نہیں تھا،میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ کا ایک ایسا فیصلہ جس کو کوئی تسلیم نہیں کرتا، سب سمجھتے ہیں کہ جانبدار فیصلہ تھا، یہ ایک ایسے چیف جسٹس جس کی جانبداری پوری طرح عیاں ہے، اب وہ اس فیصلے پر خود شرمسار ہے، نوازشریف کے خلاف سزا ہونے کا ایک عدالتی فیصلہ ہے، جس میں سزا ہوئی، فیصلوں کے ختم ہونے کا بھی ایک طریقہ کار ہے، میاں نوازشریف کا واپس آنا اور طریقہ کار کو اپنایا جائے گا، جو آئین قانون کا تقاضا ہے۔عدالتی فیصلوں کے ختم ہونے کا ایک طریقہ کار ہے، میاں نوازشریف کا واپس آئیں گے اور قانون کے تحت عدالتوں میں پیش ہوں گے، نوازشریف حفاظتی ضمانت لیں گے اور عدالت میں پیش ہوں گے، اپیلوں پر سماعت ہوگی، اس کے بعد وہ بری ہوجائیں گے۔نوازشریف کو سازش کے تحت عملی سیاست سے الگ کیا گیا،یہ پابندیاں ان پر ختم ہوجائیں گی۔وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ کوئی ڈیڈلاک نہیں ہے، نہ ہی فیصلے میں کوئی تاخیر ہے، فیصلہ ہوچکا ہے کہ اسمبلی مدت پوری ہونے کے 48گھنٹے پہلے تحلیل کردی جائے گی۔الیکشن کمیشن 60 دنوں کی بجائے 90روز میں الیکشن کے انتظامات کرسکے گا۔

اس میں کسی قسم کی تاخیر یا ابہام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ نگران وزیراعظم کیلئے ایک نام آیا اور وہ مسترد ہوگیا، اسحاق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا، نہ ہی مسلم لیگ ن یا کسی لیڈر نے اسحاق ڈار کے نام کی بات کی، یہ ایک افواہ ہوسکتی ہے جس کی ذرائع سے خبر دی گئی، جبکہ مسلم لیگ ن نے اس کی تردید کی۔یہ ضرور ہے کہ یہ تجویزضرور زیربحث ہے کہ کیا نگران وزیراعظم ٹیکنوکریٹ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا؟کوئی جج یا بیوروکریٹ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا؟اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا، لیکن اگر فیصلہ ہوگیا کہ سیاستدان ہی نگران وزیراعظم ہوگا تو پھر اسحاق ڈار بھی ہوسکتا ہے یا ان جیسا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے، اگر اس پر اتفاق رائے نہیں ہوتا پھر یقینا کوئی سابق بیوروکریٹ یا جج ہوسکتا ہے۔لیکن اس میں اہم چیز یہ ہے کہ نگران وزیراعظم ایسا آدمی ہونا چاہیئے جس کی اچھی شہرت ہو، اور ذمہ داری کو پورا کرنے کی صلاحیت ہو۔امن وامان کی صورتحال کو مخصوص معنی میں لیں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں ہے، وہاں دہشتگردی اٹھا رہی ہے، دہشتگردی کو کچلنے کیلئے ہر روز انٹیلی جنس آپریشن ہوتے ہیں، ہمارے جوان افسر، پولیس، رینجرز اور پاک فوج کے جوان و افسرشہید ہوئے ہیں،حکومت یا ریاست کی کوئی کوتاہی نہیں ہے، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ہے۔یہ کیوں ہوا؟ یہ تو سب کے علم میں ہے کہ پچھلی حکومت کے وقت میں پالیسی کے تحت کچھ لوگوں کو واپس آنے کی اجازت دی گئی، سمجھا گیا کہ یہ واپس آکر ملک وقانون کی بالادستی کو یقینی جانیں گے، اور امن کے ساتھ زندگی گزاریں گے، لیکن یہ غلط ثابت ہوا، اور انہوں نے واپس آکر وہی کام شروع کردیا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں