مظفرآباد (پی آئی ڈی) وزیر اعظم آزاد جموں وکشمیرچوہدری انوارالحق نے 13جولائی یوم شہداء کشمیر کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یہ دن تحریک آزادی کشمیر کا ایک سنہری باب ہے۔ 1931میں ڈوگرہ مہاراجہ کا ظلم و استبداد اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھااورمسلمانوں کا استحصال کیا جار رہا تھا۔ مساجد اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی جا رہی تھی۔ زمین کی ملکیت پر پابندی لگا دی گئی تھی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ محصولات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور حکمرانوں کی جبر و ظلم کے خلاف کسی بھی شخص کو آوا ز اُٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔
اس پس منظر میں 25 جون کو ایک جری شخص عبدالقدیر خان نے سرینگر میں خانقاہ معلی کے مقام پر ینگ مسلم ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے حاضرین سے کہا کہ وہ مہاراجہ کی دہشت اور بربریت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور اُن کے پاس اگر ہتھیار نہیں ہیں تو ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑ یں۔ عبدالقدیر خان نے مہاراجہ کے شیر گڑھی محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نا انصافی، دہشت اور غلامی کی علامت عمارت کو گر ا دو۔عبدالقدیر اُسی دن گرفتار ہوگیا تھا لیکن اُس کی آواز، اُس کی گرفتاری اور اُس کے مقدمے کی سماعت نے خطہ کشمیر میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ لوگ مشتعل ہو گئے اور اُن میں غم و غصے کی ایک لہردوڑ گئی۔ 13 جولائی کو جیل میں عبدالقدیر کے خلاف غداری کے مقدمہ کی سماعت جاری تھی اور جیل کے سامنے ایک ہجوم موجود تھا۔جب نماز کا وقت آیا تو ایک شخص اذان کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس سے پہلے کہ وہ اذان مکمل کرتا ڈوگرہ پولیس نے اُسے گولی مار کر بے دردی سے شہید کر دیا۔اس شہادت کے بعد یکے بعد دیگر22 مسلمانوں اُٹھے پولیس کی فائرنگ مسلسل جاری تھی لیکن بائیس مسلمانوں نے ایک ایک کر کے شہادت کا جام نوش کیا اور اذان کو مکمل کیا۔ 1931 کے دوران کشمیری ڈوگرہ فوج کی دہشت گردی کے خلاف مسلسل مذاحمت کرتے رہے اور بہادر کشمیری ننگے سینے تانے سنگینوں اور گولیوں کا سامنا کرتے رہے اور شہادتیں پیش کرتے رہے۔شہداء میں کسی ایک کی پیٹھ پر گولی نہیں لگی بلکہ سب نے سینے پر گولیاں کھائی۔ آزادی کے لیے اس شجاعت اور جذبے کی دنیا کی کسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں