عمران خان کےسیاست سے مائنس ہونے اور نواز شریف کے پاکستان واپس آنے سے پہلے کیا الیکشن ممکن ہیں؟ سینئر صحافی انصار عباسی کا تجزیہ

لاہور( پی این آئی )کیا واقعی انتخابات اکتوبر نومبر میں ہوں گے؟انصار عباسی کھل کر بول پڑے ۔سینئر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے اپنے بلاگ بعنوان “سیاستدانوں کی ہار کا یہ سلسلہ؟”میں لکھا کہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا واقعی انتخابات اکتوبر نومبر میں ہوں گے؟

 

 

 

اس سوال کا جواب ایک اور سوال سے منسلک ہے کہ کیا عمران خان کے مائنس ہونے اور نواز شریف کے عملی سیاست میں واپسی کے عمل کے مکمل ہونے تک الیکشن ممکن ہیں؟کسی کے مائنس ہونے اور کسی کے پلس ہونے کا یہ سلسلہ پرانا ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا، جس میں اگر اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا تو سیاستدانوں نے بھی کبھی اس سلسلہ کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ الٹا ایسا کردار ادا کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار کو مضبوط ہی کیا جائے۔انصار عباسی نے لکھا کہ سویلین بالادستی کا نعرہ سیاستدانوں کی طرف سے صرف اُسی وقت لگایا جاتا ہے جب سیاسی طور پر اُنہیں اپنے لئے اس میں فائدہ نظر آتا ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق سے اُنہیں اپنے اقتدار میں آنے کی امید ہوتی ہے تو پھر وہ سیاسی بالادستی کے اس نعرے کو بھلا کر اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت میں آنے کیلئے ہر جائز ناجائز کام کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔اقتدار کی اس جنگ میں ایک دوسرے کو مائنس کرنے کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ بظاہر اس جنگ میں ایک سیاستدان جیت رہا ہوتا ہے اور دوسرا سیاستدان ہار رہا ہوتا ہے لیکن اصل میں شکست سیاست کی ہی ہو رہی ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ طاقتور ہی رہتی ہے، جو دراصل کسی ایک کو مائنس اور کسی دوسرے کو پلس کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ انصار عباسی نے مزید لکھا کہ آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہی کچھ ماضی میں ہوا۔ آج جس بات پر عمران خان کو بہت اعتراض ہے چند سال پہلے وہ اُسی کھیل کا حصہ تھے۔

 

 

 

کل عمران خان نواز شریف کے مائنس ہونے پر خوش تھے، آج پوری پی ڈی ایم، (ن )لیگ بشمول نواز شریف، عمران خان کے مائنس ہونے پر خوش ہیں۔ کل جن حالات کا (ن) لیگ کو سامنا تھا آج ویسے ہی حالات کا تحریک انصاف کو سامناہے۔ 9مئی کے واقعات کی وجہ سے تحریک انصاف کیلئے صورتحال زیادہ خراب نظر آتی ہے لیکن اس کی اصل ذمہ داری عمران خان اور پی ٹی آئی پر ہی آتی ہے۔ انصار عباسی نے مزید لکھا کہ اگر سول حکومتوں کا کہیں زور رہا تو وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر، جس کا نقصان ہمیشہ سیاستدانوں کو ہی ہوا، وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔اگر نواز شریف نے 2017 میں اپنے اقتدار کے خاتمے (جس میں عمران خان کا اہم کردار تھا) پر’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ کا نعرہ لگایا تو 3 بار اس ملک کا وزیر اعظم بننے والے میاں صاحب نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی حمایت کر کے اُسی نعرہ کی نفی کردی۔بلاگ کے آخر میں انصار عباسی نے لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی سیاستدان اور سول حکومتیں صرف پرفارمنس، بہترین طرز حکمرانی، مضبوط معیشت، اصلاحات اور اداروں کو مضبوط کرکےہی جیت سکتی ہیں، اُس لڑائی کو جو رخ 9 مئی کو دیا گیا اُس نے عمران خان کی سیاست کو تو تباہ کیا ہی ہے سویلین بالادستی کے خواب کو بھی مزید دھندلا کر دیا ہے ۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں