لاہور (پی این آئی ) شہریوں کی گمشدگی کی کہانی آئینِ پاکستان کی گمشدگی کی کہانی بن چکی ہے۔ پہلے 1973ء کے آئین کو ڈھونڈ لیں آئین مل گیا تو گمشدہ شہری بھی مل جائیں گے اور عمران خان کے ساتھ بھٹو والا سلوک نہیں ہوگا۔سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے اپنے بلاگ میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے اہم تفصیلات شیئر کر دیں۔
اپنے بلاگ میں انہوں نے لکھا کہ مدثر نارو نے فیس بک پر 2018ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا تھا وہ اپنی اہلیہ اور 6ماہ کے بیٹے سچل کےساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا اور لاپتہ ہو گیا۔ جس عمران خان کے دورِ حکومت میں مدثر نارو غائب ہواآج وہ عمران خان بھی اپنی پارٹی کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور گمشدگیوں پر سراپا احتجاج ہے ۔آج عمران خان اپنی پارٹی کی خواتین کارکنوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مذمت کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کیلئے آواز نہیں اٹھاتے ۔انہیں صرف اپنی پارٹی کے کارکن مظلوم نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور ذاکر مجید بلوچ کی بوڑھی ماں ان کے لئے اہم نہیں ہیں۔حامد میر نے لکھا کہ بہت سال پہلے جب حسن ناصر غائب ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو خاموش رہے ۔اس خاموشی کی انہیں بہت بڑی سزا ملی ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آج بھی جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں کھڑا ہے ان فوجی حکمرانوں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سمیت بے نظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان حکومت میں آئے۔ آج کل شہباز شریف حکومت میں ہیں لیکن جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب ان گمشدہ افراد میں عمران ریاض خان کا نام بھی شامل ہے۔
یہ پاکستانی ریاست کے شہریوں کی گمشدگی کی کہانی نہیں بلکہ آئینِ پاکستان کی گمشدگی کی کہانی بن چکی ہے۔ آئیے پہلے 1973ء کے آئین کو ڈھونڈ لیں آئین مل گیا تو گمشدہ شہری بھی مل جائیں گے اور عمران خان کے ساتھ بھٹو والا سلوک نہیں ہوگا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں