مظفرآباد (پی آئی ڈی) بین الاقوامی سطح ُپر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے جی 20- اجلاس کا انعقاد اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی طرف سے صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بھار ت جی 20- جو بنیادی طور پر اقتصادی فورم ہے اسے علاقائی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ وہ ممالک جو سلامتی کونسل کے رکن اور جو ممالک جو اقوام متحدہ کے ممبر ہیں ان کی طرف سے متنازعہ علاقے میں منعقدہ اجلاس میں شرکت باعث افسوس ہے۔ بھارت جی- 20جیسے فورم کو اپنے جن مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔
چین، ترکی سمیت دیگر ممالک کی طرف سے سرینگر اور لداخ میں منعقدہ جی 20-کانفرنس کے دو سینشنز کا بائیکاٹ کشمیریوں کے موقف کی فتح ہے۔ بھارت جان لیکہ جب تک وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق،حق خودارادیت نہیں دیتا تو ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی کانفرنس یا تقریب خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہو مسئلہ کشمیر کی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ حالات کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں تسلسل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی تاریخ، اس کے قانونی اور سیاسی پہلوؤں پر آگاہی مہم کا آغاز کیا جائے تاکہ نسل نو مسئلہ کشمیر کے تمام تر پہلوؤں سے پوری طرح آگاہ ہو سکے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کو دبانے کے لئے انسانی حقوق کی جو پامالیاں کر رہا ہے اسے جاندار اور موثر طریقہ کار کے تحت عالمی برادری کے سامنے لایا جائے۔ بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کے لئے بیس کیمپ کے عوام اور بیرون دنیا میں مقیم کشمیری ڈائس پورہ کو مزید موثر انداز میں کام کرنا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام محکمہ تعلیم سکولز کے تعاون سے علی اکبر اعوان گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول چھتر دومیل مظفرآباد میں مقبوضہ کشمیر میں جی 20- اجلاس، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار سے مہمان خصوصی ایم دی سمال انڈسٹریز کارپوریشن طاہر محمود مرزا، ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان، ڈویژنل ڈائریکٹر تعلیم سکولزپونچھ خواجہ جاوید اقبال،ڈسٹرک ایجوکیشن آفیسر مظفرآباد خواجہ طارق شفیع، صدر معلم علی اکبر اعوان گورنمنٹ ماڈل دہوئی سکول چھتر دومیل علی اصفر عباسی، میڈیا کوآرڈینیٹر جموں وکشمیر لبریشن کمیشن سردار علی شان، ڈپٹی ڈائریکٹر تعلیم عبدالغفور عباسی، قمر اللہ قریشی، شاہد یعقوب خان، بشیر چوہان اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ مظبوط اور مستحکم پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی کامیابی کا ضامن ہے۔
دنیا میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ہے اس کے پیش نظر کوئی ملک پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ آزادی کی تحریکیں طویل اور صبر آزما ہوئی ہیں دنیا کے حلات بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن مسئلہ کشمیر موجود رہا اور موجود ہے۔ کسی کانفرنس سے یا کسی یک طرفہ قانون سے سے مسئلہ کشمیر کی حیثیت نہیں بدلی جا سکتی اور نہ کسی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی لا سکے۔ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے ہے۔ مقررین نے کہا کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ہم نے آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے۔ بیس کیمپ کے عوام پر سب سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے محکوم بھائیوں کی آواز دنیا تک پہنچائیں۔ ہمارا جو فرض ہے اور جو ہم پر قرض ہے کیا ہم اس سے عہدہ برا ہو رہے ہیں۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 2018-19میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے مقبوضہ کشمیر مین بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق جو رپورٹ پیش کی اس کے پیچھے مقبوضہ کشمیر کی سول سوسائٹی تھی۔ جس نے جدید تقاضوں ہم اہنگ اور مستند ڈیٹا اکٹھا کیا اس ڈیٹا کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے موثر فورم نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم کشمیریوں کی آواز دنیا کے ہر فورم تک پہنچا سکتے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے لئے لاکھوں کشمیریوں نے خون کے نذرانے پیش کئے۔ہزاروں خواتین عصمتیں لٹیں،ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں، پیلت سے ہزاروں متاثر ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں 8ہزار گمنام قبریں ہیں۔ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اہل کشمیر نے جان و مال اور عزت و آبرو کی جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔ مقررین نے کہا کہ بھارت کی طرف سے جی 20- کی آڑ میں جو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کشمیری عوام نے بھارت کے اس منفی ہتھکنڈے کے خلاف جو احتجاج کیا ہے اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک زیلی ادارے نے بھی بھارت کے اس ہتھکنڈے کو سیاسی مقاصد قرار دیا ہے اور چین سمیت کئی دوسرے ممالک نے سرینگر اور لداخ کے سینشنز میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں