اسلام آباد (پی این آئی) وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پارلیمان نے حکومت کو پابندکیا ہے کہ بس 4 ججز کا فیصلہ ماننا ہے، حکومت کی مجبوری ہے کہ پارلیمان 3، 2کا فیصلہ نہیں مانتی، عدالت کو اسمبلی کی کاروائی کا ریکارڈ دینے کا فیصلہ اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہاکہ حکومت 4 ججز کا فیصلہ ماننے کیلئے پارلیمان کے حکم کی پابندی ہے،حکومت کی مجبوری ہے کہ پارلیمان 3، 2کا فیصلہ نہیں مانتی،تجویز دی تھی کہ بجٹ کے بعد اتحادیوں کے مشاورت سے اسمبلی تحلیل کریں ، پی ٹی آئی کا مطالبہ تھا کہ اسمبلیاں 14مئی سے پہلے تحلیل کریں۔انہوں نے کہا کہ عدالت کو اسمبلی کی کاروائی کا ریکارڈ دینے کا فیصلہ اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے۔مرکزی حکومت اینٹی کرپشن کی کاروائیوں میں شراکت دار نہیں ہوتی۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد ، سابق وزیراعظم نواز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پوچھا کہ آج کی تازہ خبر کیا ہے؟ اکٹھے الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت کے سوال پر پوچھا کہ کل کس بنچ نے سماعت رکھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ دو تین والے یا چار تین والے بنچ نے سماعت رکھی ہے؟ہم تو چارتین کے بنچ کو مانتے ہیں دوتین کو نہیں مانتے۔
انہوں نے عمران خان کے وہیل چیئر پر عدالت میں پیشی پر کہا کہ ہم نے اللہ پر چھوڑ دیا تھا، یہ سب اللہ دکھا رہا ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 27 اپریل کی سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا ہے، چیف جسٹس سپریم کورٹ عطا بندیال نے 3 صفحات پر مشتمل حکم نامہ تحریر کیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کرنے کی کوئی ہدایت نہیں کی۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذاکرات ان کی اپنی کوشش ہے، سپریم کورٹ کا 14مئی کو انتخابات کرانے کا حکم اپنی جگہ برقرار ہے۔ یاد رہے 27 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے ملک بھر میں عام انتخابات ایک ہی دن کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے موقف اپنایا کہ 19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا، 26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا،25 اپریل کو ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی۔
اسد قیصر نے بتایا کہ وہ مذاکرات کیلئے با اختیار نہیں ہیں،گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں،دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا، چیئرمین سینیٹ نے ایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں اور چار چار نام مانگے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر پوچھا کہ اسد قیصر کے بعد کیا کوشش کی گئی کہ کون مذاکرات کیلئے با اختیار ہے؟ چیئرمین سینیٹ سے کس حیثیت سے رابطہ کیا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کیلئے با اختیار ہیں،سینیٹ وفاق کی علامت ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، سینٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، چیئرمین سینٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں، یہ سیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی مسلۂ حل کرنے دیا جائے، سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے پی ٹی آئی رہنماء شاہ محمود قریشی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت عدالت میں پیش ہوئی تھی۔عدالت نے قومی مفاد میں سیاسی جماعتوں کو موقع فراہم کیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں