ہمارا پاکستان، سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

نہ نیا پاکستان نہ پرانا پاکستان، صرف اور صرف ہمارا پاکستان۔ دیر سے ہی سہی عسکری قیادت نے ملک میں جاری سیاسی انتشار، مالی بحران اور آئینی بحران کے خاتمے کے لیے مدبرانہ اور سنجیدہ رائے دے کر گیند پھر سیاسی کوٹ میں ڈال دی۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیرنے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماوں کو مشورہ دیا کہ ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث چھوڑ کر ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔ قومی اسمبلی کے ان کیمرا سیشن میں پاک فوج کے سپہ سالار نے واضح اور دو ٹوک الفاط میں یہ بھی کہا کہ طاقت کا محور پاکستان کے عوام ہیں۔ آئین اور پارلیمنٹ عوام کی رائے کے مظہر ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں، پاک فوج ملکی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ اس دوران اراکین قومی اسمبلی نے ڈیسک بجا کر اور تالیوں سے جنرل عاصم منیر کے خیالات کا خیر مقدم کیا۔

ہمارا پاکستان ایک ایسا نعرہ ہے جو سیاسی طور پر منتشر قوم کو ایک پیچ پرلانے کی مخلصانہ کوشش ہے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ملک سلامت ہے تو سیاست ہے۔ یہ سیاستدانوں کو جوڑنے کی سعی ہے۔ جس جذبے کے تحت یہ مشورہ دیا گیا اسی جذبے کے ساتھ اس کا رد عمل بھی ہونا چاہیے۔ طرح طرح کے بیانیوں کے بجائے ہمارا پاکستان کا نعرہ ملک کے حالات کاعین تقاضا یہی ہے۔ سیاسی ،معاشی اور آئینی بحران کے حل بھی اسی نعرے میں مضمر ہے لہٰذا اس میں کسی بھی سیاسی جماعت کو کترانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہی راستہ ہے جس کے پر چل کر نہ صرف ملکی مسائل حل ہوں گے بلکہ پاکستان ترقی کی راہ بھی گامزن ہوگا۔ حکومتی اتحاد کے وزراءنے ان کیمرا اجلاس میں سپہ سالار کے خیالات کی خوب داد تو دی لیکن ان کی حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو وقت کی نزاکت اورحالات کا ادراک کراتے ہوئے انھیں کھلے دل اور غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دینی چاہیے۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو بھی ملکی مفاد کی خاطر اپنی انا اور ہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹ کر پاکستان کے لیے آگے آنا چاہیے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عمران خان اور دیگر سیاستدان اشاروں کنایوں کے ساتھ ساتھ اپنے بیانات میں بارہا اس بڑے ادارے کو معاشی و سیاسی بحران کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی بات کرچکے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوگا اگر سیاستدان عسکری قیادت کی اس مخلصانہ کاوش کو عملی جامہ پہنا کر قوم اور ریاست پر رحم فرمائیں۔ پاکستان ہم سب کا ہے۔ ملک خوشحال ہوگا تو سب کریڈٹ سیاستدانوں کو ملے گا۔عوام بھی جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دیں گے۔ جس طرح آرمی چیف نے یہ بات ایک بار پھر واضح کردی ہے کہ طاقت کا محور عوام ہے اور پارلیمنٹ سپریم ہے۔ اس کے بعد سیاستدانوں کے پاس مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔ اہل اقتدار اور اپوزیشن جماعت کو ادھر ادھر دیکھنے کے بجائے اب خود پراعتماد کرتے ہوئے ریاست اور سیاست کو بچانے کے لیے آو¿ٹ آف باکس سیلوشنز کی طرف جانا پڑے گا۔ مالی حالات کس قدر گھمبیر ہیں سب کو معلوم ہے۔ خالی خزانہ سیاسی دھکم پیل سے نہیں بھرے نہ ہی دنیا ہمیں وہ مقام دے گی جس کا پاکستان بنانے والوں نے سوچا تھا۔ جو ہمارے اگلی نسلوں کا حق ہے۔ خدارا اپنا نہیں اپنی آنے والی نسلوں کا خیال کرتے ہوئے ملک پر رحم کریں۔

سیاسی ماراماری کے دوران ایک سیلاب متاثرین سب کی آنکھوں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ عمران خان نے گزشتہ برس سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے تین ٹیلی تھونز کا انعقاد کیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ان ٹیلی تھونز کے دوران 15 ارب روپے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق، عمران خان نے سیلاب متاثرین کے نام پر غیر ملکی شہریوں اور غیر ملکی آئی این جی اوز سے بھی چندہ وصول کیا۔ پنجاب اورخیبرپختونخوا کے گورنمنٹ اکاونٹس میں فنڈز وصول کرنے کے علاوہ امریکا میں پی ٹی آئی کی انصاف ریلیف فاونڈیشن اور پاکستان اور دیگر ممالک میں عمران خان اور پی ٹی آئی سے وابستہ خیراتی اداروں کی طرف سے بھی چیک موصول ہوئے لیکن وصول کیے گئے عطیات کی کوئی تفصیلات آج تک سامنے نہیں آئیں۔ سیلاب متاثرین کے اور تو اور ان عطیات کے کسی بھی فورم پر خرچ کرنے کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔

یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پی ٹی آئی نے عطیہ دہندگان سے اربوں روپے اکٹھے کیے تاہم زمینی رقم کی تقسیم صفر رہی۔ جمع شدہ فنڈز نیشنل اور پروانشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے سرکاری فنڈز کے ساتھ مختص کیے گئے تھے۔ اصل اخراجات قومی اور صوبائی حکومتوں نے کیے اور ان فنڈز کو پی ٹی آئی نے استعمال کیا۔ عمران خان نے ثانیہ نشتر کے ساتھ یہ بھی کہا، جو ریکارڈ پر ہے، کہ انھوں نے جمع شدہ رقم سے سندھ کے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے ایک ارب مختص کیے ہیں تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے خاص طور پر سندھ میں زمینی اخراجات کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ پی ٹی آئی کے امریکا میں مقیم ڈونرز پی ٹی آئی سے انسٹرومنٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ امریکا میں ٹیکس چھوٹ کے فوائد حاصل کرسکیں تاہم پی ٹی آئی انھیں یہ سرٹیفکیٹ فراہم نہیں کر رہی ہے۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر اربوں روپے کے فنڈز گئے کہاں؟ پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ اگر سیلاب متاثرین کا درد رکھتے ہیں تو ان تک امداد کیوں نہیں پہنچی۔ اگر پیسے ملے ہیں تو زمین پر نظر کیوں نہیں آئے۔ اگر لوگوں نے محض اعلان کیا تو کیا یہ پی ٹی آئی پر لوگوں کا عدم اعتماد نہیں۔ معاملے کی تحقیقات نہ ہوئی تو مستقبل میں یہ معاملہ پی ٹی آئی کے لیے کئی مسائل کھڑے کردے گا۔۔۔۔

close