تکبر اور آمریت کی دھند میں لپٹے کمرہ عدالت سے نکلنے والا فیصلہ آئین کو برطرف نہیں کرسکتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا

اسلام آباد(پی این آئی) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ تکبر اور آمریت کی دھند میں لپٹے کمرہ عدالت سے نکلنے والا فیصلہ آئین کو برطرف نہیں کرسکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ازخود نوٹس2022/4 میں 20 مارچ کا حکم 4 اپریل کا نوٹ منسوخ نہیں کرسکتا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ وفاقی حکومت کا ملازم ہے جیسے ڈیپوٹیشن پر رجسٹرار تعینات کیا گیا تھا،3اپریل کو وفاقی حکومت نے انہیں واپس بلایا لیکن عشرت علی نے حکم مانے سے انکار کردیا اور خود کو 4 اپریل کو رجسٹرار سپریم کورٹ ظاہر کیا جو کہ غلط اقدام تھا۔ان کا کہنا تھا عشرت علی نے 4 اپریل کو اپنے دستخط سے لارجر بینچ بنانے اور سماعت 2 بجے مقرر کرنے کی فہرست جاری کی۔لسٹ جاری کرتے ہوئے کہا گیا یہ چیف جسٹس پاکستان کے حکم پر لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری تفصیلی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین عدالتوں کو سماعت کا اختیار بھی دیتا ہے اور مقدمات کے فیصلوں کے لیے بااختیاربھی کرتا ہے۔

اگر غیر موجود اختیار سماعت استعمال کیا جائے تو اس سے آئین کے مطابق عمل کرنے کے حلف کی خلاف ورزی ہوتی ہے، آئین بینچ یا ججوں کو یہ اختیار سماعت نہیں دیتا کہ وہ سپریم کورٹ کے کسی حکم کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ مقدمہ نمبر 4 کی سماعت کےلیے نام نہاد لارجر بینچ کی تشکیل غلط تھی، لارجر بینچ کو عدالت کی حیثیت حاصل نہیں تھی، 4 اپریل 2023 کا سپریم کورٹ کا حکم نامہ نہیں کہلا سکتا، اس کا کوئی آئینی اور قانونی اثر نہیں ہے، قانونی طور پر یہ بات غلط ہو گی کہ اسے حکم نامہ کہا جائے، اس کو 4 اپریل کا نوٹ کہا جائے گا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں