عمران خان نے مذاکرات کے لیے دروازے کھول دیئے

لاہور(آئی این پی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہیں کہا اگر دو تہائی اکثریت نہیں ملی تو انتخابی نتائج قبول نہیں کریں گے، پی ٹی آئی انتخابات میں کلین سویپ کرنے جا رہی ہے اس لیے حکومت الیکشن سے ڈر کر بھاگ رہی ہے، الیکشن کمیشن مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے ، انتخابات کے لیے سب سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم طریقہ کار، دن، انتخاب کے بارے میں ہر چیز کے بارے میں بات کرنے کو تیار ہیں، حکومت سے باہر ہونے کے بعد جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ سے دو ملاقاتیں کر چکا ہوں،

دونوں بار، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ انتخابات کیسے کرائے جائیں، ایک سبق ہے جو میں نے سیکھا ہے اور ایک سبق ہے جو پاکستانی عوام نے سیکھا ہے، میرا سبق یہ ہے کہ میں نے ان پر بھروسہ کیا اور میں نے ہمیشہ سوچا کہ ہم احتساب کے معاملے پر ایک پیج پر ہیں، لیکن وہ بالکل میرے مخالف تھے، احتساب پر یقین نہیں رکھتے تھے، اس وقت ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں پھنسا ہوا ہے، اگر ہمیں اس بحران سے نکلنا ہے تو مکمل طور پر ری سٹرکچر کرنا ہو گا، ہمارے گورننس سسٹم کو مکمل طور پر بدلنا ہو گا، ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے۔زمان پارک میں الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے پی ٹی آئی چیئر مین نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل سے قبل میں نے اپنے وکلا سے مکمل مشاورت کی، آئین کو کنگھالا، ہر وکیل نے کہا کہ جس وقت آپ اپنی اسمبلیاں تحلیل کریں گے، انتخابات 90 دن کے اندر ہونے ہیں۔ جیسے ہی 90 دنوں سے ایک روز ہو گا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔لہذا اگر حکومت کہتی ہے انتخابات اکتوبر میں ہوں تو دسمبر میں کیوں نہیں، اگلے سال کیوں نہیں؟جب ضیا الحق برسراقتدار آئے تو انہوں نے کہا تھا کہ میں 90 دنوں میں انتخابات کراوں گا۔ لیکن جس لمحے وہ چلا گیا، ملک نے 11 سال کھوئے لہذا اگر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اب آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اس صورت میں سپریم کورٹ ان پر توہین عدالت لگا سکتی ہے اور میں سب کو یقین دلاتا ہوں کہ عوام سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس احتجاج میں پی ٹی آئی اکیلی نہیں ہو گی بلکہ وکلا برادری بھی ہمراہ ہو گی، آئین میں کوئی شک نہیں انتخابات 90 دن میں ہونے ہیں۔ اس لیے کسی ایسے شخص کا دفاع کرنا بہت مشکل ہو گا جو پھر یہ سمجھے کہ انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ حکومت انتخابات ہارنے سے گھبرا رہی ہے کیونکہ رائے عامہ کے تمام جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ اس لیے وہ صرف الیکشن سے ڈر کر بھاگ رہے ہیں اور آئین کی خلاف ورزی پر بھی آمادہ ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے مزید کہا کہ کبھی نہیں کہا اگر ہمیں دو تہائی اکثریت نہیں ملی تو انتخابی نتائج قبول نہیں کریں گے، صرف اتنا کہا ہے کہ اگر رائے عامہ کے جائزوں کو دیکھیں ،ضمنی انتخاب کے نتائج کو دیکھیں گے، اس کے باوجود کہ طاقتور حلقے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مکمل حمایت کے باوجود، پی ڈی ایم زیادہ تر انتخابات میں دھڑن تختہ ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات میں کلین سویپ کرنے جا رہی ہے اس لیے حکومت الیکشن سے ڈر کر بھاگ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے ، الیکشن کمشنر کو انتخابات کو طول دینے کا کوئی آئینی حق نہیں تھا۔ وہ اکتوبر میں انتخابات کا اعلان نہیں کر سکتے تھے۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام بروقت انتخابات کروانا تھا، اکتوبر تاریخ یہ نہیں دے سکتے تھے، آگے جا کر ہم دیکھیں گے کہ انتخابات میں کیا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نتیجہ قبول کریں گے یا نہیں، کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ انتخابات میں کیا ہوگا اور الیکشن کمیشن اور طاقتور حلقوں کا رویہ کیسا ہوگا۔ایک اور سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ میری پارٹی اور میں نے سب کو کہا ہے کہ انتخابات کے لیے سب سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم طریقہ کار، دن، انتخاب کے بارے میں ہر چیز کے بارے میں بات کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن پھر اس کے علاوہ اور کیا بات ہے؟ میرا مطلب ہے کہ اس وقت پاکستان میں واحد مسئلہ انتخابات کا ہے۔ جہاں تک طاقتور حلقوں کا تعلق ہے، میں حکومت سے باہر ہونے کے بعد جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ سے دو ملاقاتیں کر چکا ہوں۔ دونوں بار، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ انتخابات کیسے کرائے جائیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ایک سبق ہے جو میں نے سیکھا ہے اور ایک سبق ہے جو پاکستانی عوام نے سیکھا ہے۔ میرا سبق یہ ہے کہ میں نے ان پر بھروسہ کیا اور میں نے ہمیشہ سوچا کہ ہم احتساب کے معاملے پر ایک پیج پر ہیں۔ لیکن وہ بالکل میرے مخالف تھے، احتساب پر یقین نہیں رکھتے تھے، نہیں مانتے تھے کہ بدعنوانی ایک بری چیز ہے، میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں ، میری اور ان کی خارجہ پالیسی پہلے ایک تھی تاہم بعد میں کچھ اختلافات ہوئے، جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے روس کی (یوکرین کی جنگ پر) مذمت کی ۔ میری حکومت کے معزول ہونے کے بعد سے عوام بالکل بدل چکی ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ پہلی بار عوام ہٹائی گئی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ عام طور پر جب حکومتیں ہٹائی جاتی ہیں تو لوگ جشن مناتے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بدلنا ہے۔ اس وقت ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ اگر ہمیں اس بحران سے نکلنا ہے تو مکمل طور پر ری سٹرکچر کرنا ہو گا، ہمارے گورننس سسٹم کو مکمل طور پر بدلنا ہو گا۔ ہمیں ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سازگار ماحول بنانا ہے کیونکہ ہمارے پاس شاید ہی کوئی سرمایہ کاری آ رہی ہو۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان بحران سے نکلے تو سول اور ملٹری عدم توازن کو بدلنا ہوگا۔ اور اس سے میرا مطلب قانون کی حکمرانی پر مبنی نظام ہے۔ آپ کے پاس ایسا نظام نہیں ہو سکتا جہاں وزیر اعظم کی ذمہ داری ہو لیکن اس کے پاس اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کا اختیار نہیں ہے کیونکہ یہ اختیار طاقتور اداروں کے ساتھ مشترک ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کا کردار ہے۔ آپ فوج کے کردار کو ختم کرنے کی خواہش نہیں کر سکتے ،لیکن آپ کو اس توازن کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کے پاس وہ توازن نہیں ہے تو آپ کے پاس وہ گورننس سسٹم نہیں ہو سکتا جو پاکستان کی بقا کے لیے اس وقت درکار ہے۔ لہذا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے نظام حکومت کی مکمل اصلاح کرنی چاہیے اور اسے قانون کی حکمرانی پر مبنی بنانا چاہیے۔ آپ بہترین معاشی (پالیسیوں) کے ساتھ آ سکتے ہیں لیکن اس ماحول میں، کوئی اقتصادی پالیسی کام نہیں کر رہی ہے۔سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ کسی کی بھی ملک کی ترقی میں سب سے بڑا فرق قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنا ہوتا ہے۔ میں دنیا پھر چکا ہوں، جو ممالک خوشحال ہیں اور جن میں غربت کی اعلی سطح ہے ان میں بڑا فرق صرف قانون کی حکمرانی ہے، معیشت مکمل طور پر قانون کی حکمرانی سے جڑی ہوئی ہے، جو پھر سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔پاکستان بہت خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ڈالر میں کما رہے ہیں۔ اس وقت، ہم صرف ترسیلات زر پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم سرمایہ کاری کو راغب نہیں کر سکتے۔ ہم سرمایہ کاری کو راغب کیوں نہیں کر سکتے؟ کیونکہ انہیں ہمارے عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی پر اعتماد نہیں ہے۔ لہذا، اگر انہیں اعتماد نہیں ہے، تو وہ دبئی، ملائیشیا، کہیں اور جا کر سرمایہ کاری کریں گے۔ لیکن پاکستان میں نہیںاور یہ ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کیونکہ پاکستان کا مسئلہ کیا ہے؟ یہ ہمارا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمارے پاس اب آنے سے زیادہ ڈالر باہر جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان میں ڈالر کو کیسے لا سکتے ہیں؟ نمبر ایک راستہ، یقینا، برآمدات کے ذریعے ہے۔ لیکن اگر ہمارے پاس پہلے دن سے طاقت ہے، تو صنعت کو آگے بڑھنے میں وقت لگے گا۔طویل مدت میں، برآمدات کے بغیر، آپ اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کی توقع نہیں کر سکتے۔ جتنے بھی ممالک ہم سے آگے نکل چکے ہیں، یہ ایشین ٹائیگرز، چین، حتی کہ بھارت ، اب برآمدات میں وقت لگے گا۔ قلیل وقتی منصوبہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو راغب کرنا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاریں، یہ صرف اس صورت میں ہوگا جب انہیں آپ کے نظام انصاف، قانون کی حکمرانی، معاہدے کے نفاذ پر اعتماد ہے، اس لیے یہ مکمل طور پر جڑا ہوا ہے۔ڈنمارک قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں 140 ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان کا نمبر 129 ہے۔ ڈنمارک کی فی کس آمدنی 68,600 ڈالرہے جبکہ پاکستان کی 1,600ڈالر ہے۔اپنی خارجہ پالیسی کے حوال سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کی پہلی بات یہ ہے کہ اسے آپ کی اپنی عوام کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے۔ ہر قوم خارجہ پالیسی اپنے عوام کے مفاد میں بناتی ہے۔ تو یہ ابتدا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے مفاد میں کیا ہے؟ ایک ایسی خارجہ پالیسی کے لیے جہاں ہم کسی بھی تنازع سے نکلیں، جیسے کہ افغان جہاد، جیسے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ میرا مطلب ہے، یہ تنازعات ہمیں بہت مہنگے پڑے ہیں۔ ہم نے خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران نقصان اٹھایا جس میں 80 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، ہمیں اپنی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا کیونکہ، کون ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے جسے دنیا کا خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے، جہاں دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں؟تو، نمبر ایک، ہم نے سیکھا کہ ایک چیز جس میں ہم شامل نہیں ہونا چاہتے وہ ہے دوسرے لوگوں کا تنازعہ۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی بہت سمجھدار ہے۔ یہ امریکہ کے ساتھ تجارت کر رہا ہے، چین کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔ روس سے سستا تیل مل رہا ہے۔ اس لیے ان کی خارجہ پالیسی سے لوگوں کو فائدہ مل رہا ہے، اس نے مہنگائی کو کم رکھنے کا انتظام کیا ہے کیونکہ اسے روس سے رعایتی قیمت پر تیل ملا ہے۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف، ہم نے سستے نرخوں پر تیل خریدنے کی کوشش کی لیکن پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو گئی اور نئی حکومت آئی اور نتیجے میں انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ہمیں تیل کی اونچی قیمتیں ادا کرنی پڑیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی اور غربت میں اضافہ ہوا۔میرا کہنا ہے ہمیں تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں۔ ہمیں کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔سابق وزیراعظم نے بھارت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ جہاں تک بھارت کے ساتھ تعلقات کا تعلق ہے تو بھارت کا واحد مسئلہ کشمیر ہے۔ جب سے ہندوستان نے (اگست 2019 میں) مقبوضہ کشمیر کی ریاست کا درجہ چھین لیا ہے، آپ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کے ساتھ تعلقات کو کیسے معمول پر لاتے ہیں؟ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ پھر کشمیر کے لوگوں نے جتنی قربانیاں دی ہیں جب بھارت ان کی ریاستی حیثیت چھین لیتا ہے اور پھر آپ بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھنے لگتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے کشمیری عوام کی جدوجہد کو ترک کر دیا ہے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں