اسلام آباد( پی این آئی) سابق وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے، ان کا موقف تھا کہ اس حکومت کو چلنے دیا جائے تو وہ عوام کو منہ نہیں دکھا سکے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے کچھ سینئر رہنماؤں اور چند دیگر جماعتوں کے قائدین نے بڑی مشکل سے میاں صاحب کو قائل کیا۔ نواز شریف اس شرط پر مانے کہ عمران کو فارغ کرکے ضروری قانون سازی کے فوراً بعد پی ڈی ایم حکومت مستعفی ہوجائے اور عمران خان کی عوام دشمن پالیسیون کا بوجھ اپنے سر نہ لے۔ یہ فیصلہ ابھی ہوگیا تھا کہ مئی 2022ءمیں شہباز شریف مستعفی ہوجائیں گے لیکن عمران خان کی دھونس نے پی ڈی ایم کو فیصلہ بدلنے پرمجبور کردیا۔یہ انکشافات سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر اور قریبی ساتھی سینیٹر عرفان صدیقی نے دو نجی ٹی وی چینلز سے گفتگو میں کئے۔
حال ہی میں صحافی متیلا کی جنرل (ر) باجوہ سے منسوب باتوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر صدیقی نے کہا کہ باجوہ صاحب سے منسوب نوے فیصد باتیں درست ہیں تاہم ان کی یہ اطلاع غلط ہے کہ میں نے وزیراعظم شہباز شریف کی الوداعی تقریر لکھی تھی۔عرفان صدیقی نے ایک بار پھر اپنی اس بات کی توثیق کی کہ جنرل باجوہ نومبر 2022ءمیں ریٹائر ہونے کے بجائے مزید توسیع کے خواہشمند تھے اور ان کی طرف سے میاں صاحب کو پیغام پہنچادیا گای تھا۔ خود مسلم لیگ (ن) کے بعض سینئر رہنماؤں نے بھی نواز شریف کو یہی مشورہ دیا تھا لیکن نواز شریفن ے بڑے واضح اور د وٹوک الفاظمیں کہہ دیا تھا کہ ایک دن کی توسیع کا سوال بھی پیدا نہیں ہونا چاہیے جو بھی ردعمل ہو۔ یہ بات مجھے خود میاں صاحب نے بتائی تھی اور بہت سے دوسرے لوگوں نے تصدیق کیتھی۔ ایک اور سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ 2019ءمیں بھی نواز شریف، جنرل باجوہ کی توسیع اور اس سلسلے میں قانون سازی کے شدید خلاف تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری پالیسیوں اور روایت کے خلاف ہے۔ اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں نے بڑیمشکل سے وقتی مصلحت کا تقاضا قرار دیتے ہوئے ان سے اپنی بات منوائی تھی لیکن میاں صاحب آج بھی اسے ایک غلط فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ میاں نواز شریف کی طرح مریم نواز بھی عدم اعتمادکے بعد حکومت جاری رکھنے کے خلاف تھیں اور جگہ جگہ کہہ رہی تھیں کہ ”ہم غلاظت کا یہ ٹوکرا کیوں اپنے سر پر اٹھائیں۔“ ان دنوں نواز شریف نے حتمی طور پر کہہ دیا تھا کہ 25 مئی تک شہباز شریف مستعفی ہوجائیں، سب کچھ طے ہوگیا۔ بالواسطہ طور پر عمران خان کو بھی یہ پیغام پہنچادیا گیا کہ حکومت مستعفی ہورہی ہے اور ستمبر 2022ءتک چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ہوجائیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جنرل باجوہ کو بھی آگاہ کردیا تھا اور فوج نے اپنے طور پر بھی عمران خان کو اطلاع کردی تھی۔ عمران خان کو فوج نے کہاتھا کہ اب 25 مئی کو ان کے لانگ مارچ اور اسلام آباد پر چڑھائی کا کوئی جواز نہیں لیکن عمران خان نے 22 مئی کو پشاور میں پریس کانفرنس میں لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔
عمران کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسلام آباد پر چڑھائی کر کے نئے انتخابات کا کریڈٹ لے لیں گے اور عوام کو بتائیں گے کہ میں نے اپنے زور بازو پر حکومت کو گھر بھیج کر نئے انتخابات کی تاریخ لی۔ جب یہ بات نواز شریف کے علم میں آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہرگز مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کی بات نہ کی جائے۔ ہم عمران خان کی دھونس میں ہرگز نہیں آئیں گے۔ اسے اپنی طاقت آزمانے دیں۔ یہاں سے سارا کھیل اُلٹ گیا۔ عمران خان کو انتخابات طشتری میں رکھ کر پیش کیے جارہے تھے لیکن انہوں نے اپنی ضد و ہٹ دھرمی اور دھونس کی وجہ سے یہ سنہری موقع ضائع کردیا۔ اب وہ انتخابات کے لیے تڑپ رہے ہیں لیکن انہیں تھوڑا انتظار کرناہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان انتخابات نہیں، انتشار اورہنگامہ چاہتے ہیں۔ ان کی بے حکمتی ہی انہیں موجودہ مقام تک لے آئی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں