لاہور (پی این آئی) نگراں وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے آئی جی پنجاب عثمان انور کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہمیں رپورٹ مل گئی ہے کہ پی ٹی آئی کارکن ظل شاہ پولیس کے تشدد سے جاں بحق نہیں ہوا، اس کی موت ٹریفک حادثے میں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ پہلے میرے اوپر ایک مذہبی قتل ڈالا گیا، اب علی بلال عرف ظل شاہ کے قتل کا الزام لگادیا گیا۔ یاسمین راشد کو پتہ بھی تھا کہ یہ ایک حادثہ تھا مگر یاسمین راشد نے
جھوٹی کہانی گھڑی، حتی کہ پریس کانفرنس کر دی اور باقاعدہ درخواست بھی دی کہ علی بلال کا قتل کیا گیا، انہیں اس طرح کے جھوٹے الزامات نہیں لگانے چاہئے تھے، ان لوگوں نے میرے اور پولیس کے ساتھ بہت زیادتی کی۔آئی جی پنجاب عثمان انور نے اس موقع پر کہا کہ شام 6 بج کر 52 پر علی بلال کو سروسز ہسپتال میں کالے ویگو ڈالے میں چھوڑا گیا، گاڑی میں موجود لوگ علی بلال کو طبی امداد کیلئے لے کر ہسپتال لے کر گئےتھے۔ ہمیں معاملے کی اطلاع ملی تو
فوری کارروائی شروع کی۔ ہمارا فیصلہ تھا کہ اگر پولیس تشدد کے شواہد ملے تو ذمہ داران کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ اس شخص کو مارنے کی کوئی سازش نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ گاڑی 31 کیمروں کی مدد سے چیک کی گئی، جی پی ایس کی مدد سے ٹریک کیا گیا۔ گاڑی میں مظلوم شخص علی عابد کا خون بھی موجود ہے۔ گاڑی کے مالک کا نام راجہ شکیل ہے، یہ پی ٹی آئی کے عہدیدار ہیں جبکہ ڈرائیور کا نام جہانزیب ہے۔
آئی جی پنجاب کے مطابق راجہ شکیل نے یاسمین راشد کو معلومات دیں کہ حادثے میں بندہ فوت ہو گیا ہے۔ یاسمین راشد نے کہا کہ 9 مارچ کو زمان پارک آ جائیں وہاں پارٹی قیادت سے ملاقات کرواؤں گی۔ راجہ شکیل اگلے دن دوپہر ایک ڈیڑھ بجے کے قریب زمان پارک گئے۔ یاسمین راشد نے تمام تفصیل اپنے رہنماوں کو بتائی۔ اس کے بعد راجہ شکیل اور ڈرائیور انڈر گراونڈ ہو گئے۔ ڈرائیور کی داڑھی تھی، اس نے شیو کروا لی، ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کے بعد پولیس اور پنجاب حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر جھوٹی ریکارڈنگز چلائی گئیں اور علی بلال کے قتل کی سازش سمیت خطرناک الزامات لگائے گئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں