عمران خان کو کن کن کیسز میں نا اہل اور جیل جانا پڑے گا؟ سلیم صافی کا تفصیلی تجزیہ

اسلام آباد (پی این آئی) سینئر صحافی سلیم صافی نے پرویز الٰہی کے پی ٹی آئی میں جانے اور پھر صدر بننے اور اب عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں آجانے سے متعلق اپنے تجزیئے میں دھماکہ خیز انکشافات کئے ہیں۔

سلیم صافی نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ عمران خان کو اپنی سیاست کے ابتدائی سالوں میں مار پڑی تو انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف سے امیدیں وابستہ کر لیں لہذا جب پرویز مشرف نے ٹیک اوور کیا تو عمران خان اور طاہر القادری سمیت لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا۔ پھر عمران خان نے وار آن ٹیرر میں شمولیت کے مشرف کے فیصلے کی تعریف کی بلکہ 2002 کے ریفرنڈم تک ان کے ساتھ رہے۔ عمران خان کا مشرف سے یہی مطالبہ تھا کہ انہیں الیکٹیبلز مہیا کئے جائیں۔ سلیم صافی کے مطابق اس دوران مشرف اور ان کے ساتھیوں کی متفقہ سوچ رہی کہ عمران خان کیلئے جتنی بھی کوشش کر لی جائے ان کو اس سطح پر نہیں لا سکتے کہ وہ وفاقی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائیں۔ لہذا جنرل (ر) مشرف نے اس وقت مسلم لیگ ق کے سر پر دست شفقت رکھا، چوہدری شجاعت اور پرویز الہی کی قیادت میں ایک پارٹی تشکیل دیدی گئی، مختلف پارٹیوں سے لوگ اس میں شامل کروائے گئے اور پھر ق لیگ کو اقتدار دلوایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان یہ صورت حال دیکھ کر چوہدری برادران کے شدید مخالف ہو گئے اور 2002 کے الیکشن میں انتخابی مہم نہ آصف زرداری نہ نوازشریف بلکہ چوہدری برادران کے خلاف چلائی اور اس وقت پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہہ دیا، وقت گزرتے گزرتے عمران خان کی ان سے مخالفت بڑھتی رہی۔

سینئر صحافی کے مطابق 2010 میں اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ عمران خان کو تیسری قوت کے طور پر سامنے لایا جائے چنانچہ ان کی پارٹی میں لوگوں کو شامل کروایا گیا کیونکہ مسلم لیگ ق کا دور 2008 میں ختم ہو چکا تھا اور وہ سمجھ چکے تھے کہ اس غبارے میں اب ہوا نہیں بھری جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین، علیم خان سمیت باقی لوگ اسی وقت عمران خان کی پارٹی میں شامل کروائے گئے، ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے میرے ساتھ انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ان کی پارٹی سے لوگ توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کروائے گئے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ گذشتہ الیکشن (2018) میں جب بھرپور ریاستی سرپرستی کے باوجود عمران خان حکومت سازی کیلئے مطلوبہ نشستیں نہ حاصل کر سکے تو ان کا ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے ساتھ جبری اتحاد کروایا گیا۔ مگر عمران خان اور ق لیگ کے مابین فاصلے برقرار رہے اور عمران خان نے ایک مخصوص عرصے تک مونس الہی کو وزیر نہیں بنایا اور محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ مونس بہت کرپٹ ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ وہ اپنے کالمز میں تحریک انصاف کو نئی مسلم لیگ ق کہتے رہے کیونکہ پہلے جو کام اسٹیبلمشنٹ نے پہلے مسلم لیگ ق کیلئے کیا تھا وہ تحریک انصاف کیلئے شروع کر دیا۔ چوہدری پرویز الہی نے کچھ ہی عرصہ قبل انٹرویو میں کہا تھا کہ عمران خان کو تو سب کچھ اسٹبیلشمنٹ نے دیا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا کہ جب پنجاب میں عمران خان کی حکومت تبدیل ہو رہی تھی تو پنجاب کی سربراہی کیلئے چوہدری شجاعت اور پرویز الہی، شہباز شریف کے ساتھ مل گئے، آصف زرداری کو مٹھائی بھی کھلا دی۔ مگر اگلی ہی صبح جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر شہباز شریف اور آصف زرداری کی بجائے عمران خان کا ساتھ دینے چل پڑے۔ اس کے باوجود پرویز الہی اور عمران خان جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بارے میں ایک پیج پر نہیں تھے اور وہ عمران خان کو کہتے رہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف باتیں نہ کریں۔ سلیم صافی نے بتایا کہ عمران خان دوسروں کو کیسے رسوا کرتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی کو تحریک انصاف کا صدر بنانے کا تقرر نامہ چوہدری فواد کے ذریعے پہنچایا جن کی گرفتاری پر پرویز الہی خوشی کا اظہار کر چکے تھے۔ سینئر صحافی نے تحریک انصاف کو دیگر سیاسی پارٹیوں کا ملغوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری ایک مختلف سیاسی پارٹی سے تحریک انصاف میں آئے، شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی، محمود خان بھی کسی اور پارٹی سے آئے۔ کچھ لوگ اپنا کاروبار بچانے کیلئے تحریک انصاف میں آئے۔ کچھ لوگ مانیکا خاندان کی سفارش پر آئے۔ انہوں نے عمران خان کی گرفتاری سے متعلق کہا کہ عمران خان جتنا بھی بچتے رہیں، عدالتوں سے جتنا بھی ریلیف ملے لیکن بالآخر تین، چار کیسز ایسے ہیں کہ جن میں انہیں نا اہل بھی ہو جانا ہے اور شائد جیل بھی جانا پڑے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسی صورت میں پارٹی کی قیادت کون کرے گا۔ سلیم صافی نے کہا کہ ظاہری طور پر لگتا ہے کہ تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کی گرفت میں نہیں آ رہی تو پرویز الہی کا اس پارٹی کا صدر بن جانا بڑی اہم پیش رفت ہے۔ سینئر صحافی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ سے دو طرح کے لوگ منسلک ہیں، ایک وہ جو ہر صورت اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ ہی دیتے ہیں، ان کے کارندے اور حکم بجا لاتے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی ان لوگوں میں شامل ہیں۔ دوسرے لوگ وقتی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی بن جاتے ہیں پھر بگڑ بھی جاتے ہیں تو پرویز الہی کے تحریک انصاف میں جانے سے اب یہ پارٹی کلی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بن جائے گی۔ یہ بات اپنی جگہ پکی ہے کہ چوہدری برادران کچھ بھی کر لیں، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں جا سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب اس طرح تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کے کنڑول میں آ جائے گی۔ پرویز الہی پہلے ایک اور طرح کی مسلم لیگ ق کے کرتا دھرتا تھے، اب تحریک انصاف کے صدر بن کر دوسری طرح کی مسلم لیگ ق کے کرتا دھرتا بن گئے ہیں۔ اگرچہ اس وقت عمران خان بڑے انقلابی بنے دکھائی دیتے ہیں لیکن عمران خان کے علاوہ جو تحریک انصاف میں لاٹ ہے وہ ہے تو مسلم لیگ ق ہی، سلیم صافی نے کہا کہ وہ 2013 سے تحریک انصاف کو مسلم لیگ ق کے نام ہی سے یاد کرتا ہوں۔ تو اگر عمران خان کو مائنس کر لیا جائے تو تحریک انصاف محض مسلم لیگ ق پلس ہی رہ جاتی ہے اور اس کی قیادت چوہدری پرویز الہی سے زیادہ بہتر کوئی نہیں کر سکے گا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں