ورلڈ بینک نے پاکستان کو ملنے والے قرض کو موخر کرنے کی خبروں پر ردعمل دیدیا

اسلام آباد (پی این آئی )ورلڈ بینک نے پاکستان کو ملنے والے قرض کو مؤخر کرنے کی خبروں کی تردید کر دی ہے ۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز میڈیا میں ایک خبر نے پاکستانیوں کی توجہ حاصل کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ورلڈ بینک کی جانب سے ملنے ملنے والے 1.1 ارب ڈالر کے دو مختلف قرضوں کی منظوری آئندہ مالی سال تک موخر کر دی گئی ہے تاہم آج ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کی جانب سے اس کا نوٹس لیتے ہوئے تردید کی گئی ہے اور وضاحتی بیان جاری کر دیا گیاہے ۔

کنٹری ڈائریکٹر کی جانب سے جاری کر دہ بیان میں کہا گیاہے کہ پاکستان میں ممکنہ آپریشنز کی منظوری میں تاخیر کی خبر درست نہیں ہے ، تمام مجوزہ آپریشنز اور رقوم سے متعلق منظوری کی تاریخیں واضح ہیں ،عالمی بینک مناسب طریقہ کار کے بعد قرض منظوری کی تاریخ دے گا۔یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان کی مقامی ویب سائٹ ٹریبیون نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ورلڈ بینک کی جانب سے سکینڈ ریزیلینٹ انسٹی ٹیوشن فار سٹسٹینبلیٹی اکنامی(RISE-II) کے 450 ملین ڈالر کے قرض اور سستی توانائی کیلئے دوسرے پروگرام (PACE-II)) کے 600 ملین ڈالر کے قرض کی منظوری مؤخر کرنے کا فیصلہ پاکستانی حکومت کیلئے ایک بھاری جھٹکا ثابت ہو گا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ورلڈ بینک کے دستاویزات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سستی توانائی کیلئے دوسرے منصوبے PACE-IIکے قرض کی منظوری بھی ممکنہ طور پر آئندہ مالی سال ہی ہو گی ۔اتحادی حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے کوششیں کر رہی ہے ، ورلڈ بینک کے حالیہ فیصلے نے حکومت کے سالانہ فنانسگ منصوبے کے خلاف 1.5 ارب ڈالر کا خلا پیدا کر دیاہے ۔گزشتہ سال اگست میں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے قبل ورلڈ بینک نے 300 ملین ڈالر کے خلاکو پُر کرنے کیلئے اپنی قرض کی رقم کو بڑھانے کی رضا مندی ظاہر کر دی تھی ، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے فیصلہ سازی نہ ہونے پر اب یہ تمام کوششیں ضائع ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ۔ورلڈ بینک کے ترجمان کا کہناتھا کہ RISE-II کی تیاری جاری ہے اور ورلڈ بینک اصلاحات کے نفاذ کیلئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہاہے ۔موجودہ مالی سال کیلئے حکومت کو امید تھی کہ وہ 30 سے 30 بلین ڈالر غیر ملکی فنانسگ حاصل کر لے گی لیکن اب یہ منصوبے حقیقت کا لبادہ اوڑھتے دکھائی نہیں دیتے ، فنانسگ پلان میں ورلڈ بینک کے 2.9 بلین ڈالر بھی شامل تھے ۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں