جنرل عاصم منیر کے آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ میں عمران خان کے متعلق کیا تبدیلی آئی؟ سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا تہلکہ خیز دعویٰ

لاہور (پی این آئی )سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے دعویٰ کیاہے کہ جنرل عاصم منیر کے آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور عمران خان کے خلاف وہی پرانی پالیسی جاری ہے ، عمران خان مقبول تو ہیں لیکن اب قبول نہیں ہیں۔

سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ جنرل عاصم منیر جب سے آئے ہیں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، وہی پرانے الزامات دہرائے جارہے ہیں،انٹیلی جنس ایجنسیوں میں کہیں بھی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور ابھی تک پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، عمران خان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے خلاف ہی پالیسیاں جاری ہیں، عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ہیں ، ،وہ مقبول تو ہیں لیکن قابل قبول نہیں ہیں۔ سہیل وڑائچ کا کہناتھا کہ اصولی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے ، جو بھی لیڈر مقبول ہے اسے اقتدار میں آنا چاہیے، تیسری قوت نہیں ہونی چاہیے ، یہ تیسری دنیا ہے ، یہاں اسٹیبلشمنٹ ہے ، یہاں مقبولیت صرف کام نہیں کرتی ، قبولیت بھی کام کرتی ہے ، اگر ادارے کسی کو مسترد کر رہے ہیں تو بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو جب 1988 میں اکثریت کے ساتھ آئی تھیں ان کی کابینہ میں بھی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے بندے شامل کر دیئے تھے بلکہ شرط رکھی تھی کہ ہمارے بندے شامل کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ مقبولیت اہمیت رکھتی ہے لیکن قبولیت کے ساتھ مل کر ، اگر قبولیت نہ ہو تو پھر مشکلات ہی رہتی ہیں ، پھر حکومت چھ آٹھ مہینے چلتی ہے ، پھر وہ حکومت گر جاتی ہے ، عد م اعتماد ہو جاتاہے ، کبھی اس کے خلاف کوئی نہ کوئی اور پارٹی آجاتی ہے ۔ جتنے بھی اے پولیٹیکل ہیں ، اس میں بھی پالیٹکس شامل ہے ،یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کا ساتھ نہ دے، جب حکومت کا ساتھ دیں گے تو اس کامطلب ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں اور عمران خان کے خلاف ہیں، یہ صاف بات ہے ۔عمران خان معاشی اور سیاسی صورتحال میں برابر کے شریک ہیں بلکہ بہت بڑے فریق ہیں، اس وقت بھی کرائسسز تھے ، اب بڑھ گئے ہیں، کرائسسز وہیں سے شروع ہوئے تھے، جب شاہد خاقان عباسی تھے اس وقت معاشی مشکلات نہیں تھیں، عمران خان کے دور میں ہی معاشی کرائسسز بڑھے ہیں ۔عمران خان کو ہٹانے کی مختلف وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ معاشی صورتحال کی خرابی تھی ۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں