جنرل باجوہ کو کون مارشل لا کے مشورے دیتا تھا؟ نامور اینکر پرسن کا انکشاف

اسلام آباد (پی این آئی ) اینکر پرسن منصور علی خان کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو کئی صحافیوں نے ملک میں مارشل لا کے مشورے دیے لیکن انہوں نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔اپنے ایک وی لاگ میں منصور علی خان نے بتایا کہ انہوں نے جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع سے بات کرکے ان کا موقف حاصل کیا ہے۔

 

 

انہوں نے جنرل باجوہ کیلئے سوال بھیجا کہ کیا آپ مارشل لا لگانے لگے تھے؟ اس پر جنرل باجوہ کے ذرائع نے بتایا کہ کئی صحافیوں نے جا کر مشورے دیے تھے کہ آپ مارشل لاء لگا دیں لیکن جنرل باجوہ نے ہمیشہ اس تجویز کو رد کیا اور کہا کہ ملک میں مارشل لاء کسی صورت نہیں لگے گا۔موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حوالے سے جنرل باجوہ کے ذرائع نے کہا کہ جنرل باجوہ کے دور میں ہی عاصم منیر کو ہٹایا گیا تھا جو غلط تھا لیکن وہ وزیر اعظم کا استحقاق تھا، ان کو آئی ایس آئی سے ہٹانے کی جو وجہ عام طور پر بیان کی جاتی ہے، انہیں ہٹانے کی اصل وجہ وہی تھی۔ نئے آرمی چیف کی سمری کے حوالے سے طے تھا کہ یہ 23 نومبر کو بھیجی جائے گی کیونکہ 19 کو ایک جنرل ریٹائر ہو رہے تھے جن کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جا رہا تھا، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد طے شدہ وقت سے ایک دن پہلے سمری بھیج دی گئی۔جنرل باجوہ کا فیورٹ کوئی نہیں تھا، انہوں نے وزیر اعظم کو تمام امیدواروں کے بارے میں فیڈ بیک دیا اور بتایا کہ ان کا اور امیدواروں کا سنیارٹی میں سات سال کا فرق ہے، جنرل باجوہ کو آئیڈیا ہوچکا تھا کہ نیا آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس کون ہوگا۔

 

 

منصور علی خان کے مطابق جنرل باجوہ کا موقف ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے سنیارٹی کو ہمیشہ کا اصول نہیں بنانا چاہیے بلکہ قابلیت کو دھیان میں رکھنا چاہیے، جنرل عاصم منیر میں صلاحیت موجود ہے، “اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جنرل عاصم منیر کو آپ پریشر میں لے آئیں گے تو ایسا نہیں ہوگا، وہ ڈسپلن کے ساتھ کام کرنے والے شخص ہیں اور انہیں تر نوالے کے طور پر نہ لیا جائے۔”

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں