وزیراعظم چاہے عمران خان ہوں یا شہباز شریف۔۔۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا آڈیو لیکس سے متعلق موقف آگیا

واشنگٹن (پی این آئی) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیرِاعظم چاہے عمران خان ہوں یا شہبازشریف،آڈیولیکس سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوا، آڈیو لیکس معاملے کی انکوائری کے نتائج کا انتظار ہے، وزیراعظم آفس کا حساس معاملہ ہے اس کی مذمت کرتے ہیں۔

 

 

انہوں نے غیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آڈیو لیکس حساس معاملہ ہے، اس عمل کی مذمت کرتے ہیں، وزیرِاعظم شہبازشریف نے آڈیو لیکس معاملے کی انکوائری کا حکم دیا ہے، انکوائری کے نتائج کا ہم سب کو انتظار رہےگا۔انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم چاہے عمران خان ہوتے یا اب شہبازشریف ہیں، آڈیو لیکس معاملے سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوا ہے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے امریکی میگزین فارن پالیسی کے ایڈیٹر ان چیف روی اگروال سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال پر کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے، خاص طور پر ایسے وقت میں ہم کسی بھی کشیدگی کو بڑھانا یا جیو پولیٹیکل فٹ بال بننے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے جب ملک سیلاب میں گھرا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ جغرافیائی سیاسی تقسیم کے اس دور میں، میں موسمیاتی تبدیلی کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے ان دونوں عالمی طاقتوں کو متحد کرکے ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔

 

 

وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ امریکا اور چین، دونوں ممالک کے دوست کے طور پر شاید پاکستان کی منفرد حیثیت اس معاملے میں باہمی تعاون کا سبب بن سکتی ہے۔ بلاول بھٹو نے دونوں عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔فارن پالیسی سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے زور دیا کہ ہر چیز امریکا اور چین کے جیو پولیٹیکل تنازع سے جڑی ہوئی نہیں ہے اور مجھے یہ مضحکہ خیز لگتا ہے کہ ہم اس وقت اپنے ملک کی بقا اور تباہ کن سیلاب سے نمٹنے کی صلاحیت کے بارے میں بات کرنے کے بجائے یہ گفتگو کر رہے ہیں۔ اگر امریکا اور چین مل کر کردار ادا نہیں کریں گے تو ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی گہری جڑیں ہیں۔

 

 

پاکستان چین کے ساتھ اس وقت دوستی کا خواہاں تھا جب کوئی اور نہیں کرنا چاہتا، اب ہر کوئی چین کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہے۔بلاول بھٹو نے تباہ کن سیلاب سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اب تک ملنے والی غیر ملکی امداد کے بارے میں بھی بات کی۔انہوں نے پاکستان کی جانب سے مدد کی اپیلوں پر عالمی ردعمل کی تعریف کی لیکن اسے ملک کی ضرورت کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے مترادف قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ہم ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور اپنے نقصان کی ضروریات کا جائزہ لے رہے ہیں، اب تک ہم نے صرف ہنگامی اپیلیں کی ہیں جس کا ہمیں نہ صرف امریکا بلکہ تمام دوست ممالک کی جانب سے شاندار جواب ملا ہے لیکن یہ سب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کو سیلاب کے سبب پہنچنے والے نقصان کی شدت کا اندازہ اس کیلئے درکار رقم کے تخمینے کے بعد ہوگا، فی الوقت یہ صرف ایک اندازہ ہے کہ ملک کو مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔بلاول نے اپنے دورہ امریکہ کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی ای) کے 77 ویں اجلاس اور دیگر مختلف فورمز پر اپنے ملک کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں کامیاب رہے۔ کوپ 27 کے آئندہ سربراہی اجلاس میں گرین مارشل پلان پر پیشرفت کے امکانات کے حوالے سے سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ مجھے ایسا نہیں لگتا کہ ہمیں اس لیے کوشش کرنا چھوڑ دینا چاہیے کہ امیدیں ختم ہو گئی ہیں۔

 

 

 

میں نے ماحولیاتی انصاف کے بارے میں بات کی اور اسے ایک تضاد کے طور پر دیکھنے کے بجائے امریکی صدر اور یورپ کے کئی ممالک کے رہنماں کے بیان کردہ موقف کے تسلسل کے طور پر دیکھوں گا، ہمیں اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی موسمیاتی موافقت کے لیے رقم اکٹھی کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی تناظر میں، میں نے ماحولیاتی دبا کے شکار ممالک کے لیے ایک گرین مارشل پلان تجویز کیا، یہ تمام ممالک عالمی سطح پر کاربن گیسوں کیا خراج میں نہ ہونے کے برابر حصہ ڈالتے ہیں۔ اس منصوبے کی فنڈنگ آلودگی کے ذمہ دار وہ بڑے ممالک کریں گے جنہوں نے اس بحران کو جنم دیا۔ انہوں نے موحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تجویز دی کہ بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والے ممالک کے مقروض ممالک کا قرضہ امداد کی صورت میں تبدیل کردینا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ نہیں، سچ کہوں تو میں نے کسی سے مدد نہیں مانگی، میں نے امریکا، چین اور مشرق وسطی سے بھی مدد نہیں مانگی، ان سب نے رضاکارانہ طور پر مدد کی، میرے خیال میں بدترین انسانی تباہی کا وقت ساری انسانیت کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں