قوم دعا کرے ڈالر سو روپے پر آ جائےتو وارے نیارے ہو جائیں گے، وزیر اعظم شہباز شریف

اسلام آباد (پی این آئی)وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ قوم جھولیاں اٹھا کر دعا کرے کہ ڈالر سو روپے تک آ جائے وارے نیارے ہو جائیں گے۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ آڈیو لیکس بڑی کوتاہی ہے، اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی بنا رہے ہیں،جو معاملے کی تحقیق کرکے تہہ تک پہنچے گی،اس طرح کی سیکیورٹی کی کوتاہیاں ہوں تو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟

پاکستان کے وزیراعظم سے وزیراعظم ہاؤس میں ملنے کون آئیگا اور بڑا سوچے گا کہ کوئی ایسی سنجیدہ بات کروں یا نہیں ؟،آڈیو لیکس میں کوئی غلط بات نہیں، مریم نواز نے اپنے داماد کیلئے کوئی رعایت یا سفارش نہیں مانگی،آرمی چیف کی تعیناتی آئین و قانون کے مطابق ہوگی،مفتاح اسماعیل نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، اسحاق ڈار کا معیشت کے حوالے سے بہت اچھا تجربہ ہے،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے سیلاب کے حوالے سے بات کی ،کشمیر، فلسطین اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے پاکستان کا بھرپور مؤقف پیش کیا، عمران حکومت نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حلیہ بگاڑا

اور بیڑا غرق کردیا گیا، پاکستان تنہائی کے دور سے نکلا ہے،بھارت کے اندر مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک ہے جو قابل مذمت ہے ،وزیراعلیٰ سے آج تک سرکاری بیرونی دوروں کے خرچیخود ادا کرتا ہوں،اقوام متحدہ میں زعما نے ڈونر کانفرنس اور تعاون کی بات کی ہے ،ہم اس پر فعال کام کر رہے ہیں،سیلاب کے آنے میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں، کاربن کے اخراج میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے وزرا کے ہمراہ

نیوز کانفرنس میں شنگھائی کانفرنس اور اقوام متحدہ میں ہونے والی ملاقاتوں اور سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سمر قند میں شنگھائی کانفرنس میں حوصلہ افزا ملاقاتیں ہوئیں جہاں ازبکستان کے صدر بہترین میزبانی کی خدمات انجام دے رہیتھے۔انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیا، چین اور روس کے صدور سے ملاقات ہوئی اور کانفرنس میں ہم نے پاکستان کے اندر سیلاب کے بارے میں بتایا کہ اس میں ہمارا کردار قطعاً نہیں ہے

اور ہمیں ناکردہ گناہ کی سزا نہ جانے کیسے ملی۔انہوںنے کہاکہ کاربن کے اخراج میں پہاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر یہ آفت آن پڑی اور وہ تباہی مچائی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور یہی بات کانفرنس میں کی اور دنیا کو آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ وہاں موجود دنیا کی قیادت اور زعما نے خود ذکر کیا اور پاکستان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرادی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے

اجلاس میں دنیا کے زعما سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں اور اسی پہلو کو اجاگر اور بتایا کہ سیلاب سے 1600 سے زائد لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے، فصلیں اور لاکھوں گھر تباہ ہوگئے اور لوگوں کی کمائی چلی گئی۔سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصانات ہوئے ہیں جس کا میں نے ہر اجلاس میں چاہے وہ ایران کے صدر یا فرانس کے صدر، بیلجیم اور جاپان کے وزرائے اعظم ہوں اور امریکی صدر جوبائیڈن سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کے ساتھ اظہار ہمدردی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نہ صرف پاکستان کے سیلاب کے

حوالے سے بات کی بلکہ کشمیر، فلسطین اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے پاکستان کا بھرپور مؤقف پیش کیا۔انہوںنے کہاکہ بھارت کے اندر مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک ہے، اس کی بھرپور مذمت کی اور بتایا وہاں مسلمانوں کی زندگی تنگ ہے، کشمیر کے اندر ظلم وستم جاری ہے، 5 اگست 2019 کو خصوصی آرٹیکل ختم کردیا ہے اور اسی طرح ہم نے پاکستان کا مؤقف بھرپور پیش کیا، جس میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو میرے ساتھ تھے، ان کے علاوہ خواجہ آصف، شیری رحمن اور مریم اورنگزیب کی کاوشیں تھیں اور یہ ٹیم ورک ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تنہائی کے دور سے نکلا ہے، اس تنہائی سے پاکستان کو نقصان پہنچا تھا،

گزشتہ حکومت نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حلیہ بگاڑا اور بیڑا غرق کردیا گیا۔پچھلی حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوست اور برادر ممالک کو ناراض کیا گیا، میں اس کا عینی شاہد ہوں، دوست ممالک نے جو الفاظ کہے وہ نہیں دہرا سکتا تاہم انہوں نے پچھلی حکومت اور اس کے سربراہ کے بارے جو بتایا وہ الفاظ میں یہاں بتاؤں تو سب کو پسینہ آئے گا کہ وہ کیا رائے رکھتے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کس طرح تحکمانہ انداز میں،

کسی کی پرواہ نہ کرنے، عزت اور احترام سے بات نہ کرنا اور خود کو آئن اسٹائن سمجھنا، اس طرح کی صورت نے پاکستان کو نقصان پہنچایا تاہم موجودہ حکومت نے دن رات کوشش سے ہم دوبارہ تنہائی سے نکل کر آگے بڑھ رہے ہیں اور ممالک سے رابطے ہیں، عزت اور احترام سے بات ہوتی ہے۔وزیراعظم نے گزشتہ حکومت پر تنقید جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ملک کی معیشت کا جنازہ نکال دیا اور پھر غیرممالک کے سربراہوں سے غیرمہذب طریقے سے ملنا اور بھاشن دینے کے کچھ نہیں کیا۔آڈیولیکس کے حوالے سے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتیہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے اور بہت بڑی کوتاہی ہے،

بات صرف میری نہیں ہے بلکہ کوئی بھی وزیراعظم جس کو عوام نے منتخب کیا ہو اور وہاں اس طرح کی سیکیورٹی کی کوتاہیاں ہوں تو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کے وزیراعظم سے وزیراعظم ہاؤس میں ملنے کون آئے گا اور بڑا سوچے گا کہ کوئی ایسی سنجیدہ بات کروں یا نہیں کیونکہ 100 باتیں ہوتی ہیں، یہ وزیراعظم ہاؤس کی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس پر نوٹس لے رہا ہوں، اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جائے گی جو اس سارے معاملے کی تحقیق کرکے تہہ تک پہنچے گی۔انہوںنے کہاکہ آڈیو لیکس کو آپ سب نے سْنا اْس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے، مریم نواز کے

داماد کی شوگر مل کیلئے بقیہ مشینیں بھارت سے منگوانے کی بات کی تھی پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر نے کی اور کوئی لین دین کی بات نہیں کی تھی۔انہوں نے کہا کہ میں نے واضح کردیا تھا کہ یہ معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں جائے گا اور پھر منظوری کے بعد کابینہ میں پیش ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مریم نواز اور ہمارے داماد کی آدھی مشینری بھارت سے پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں آگئی تھی، جو مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اب بے کار پڑی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ آڈیو میں کوئی ہیرے دینے، زمینیں دینے کی بات نہیں تھی، جیسی عمران خان کے دور میں سامنے آئیں، اگر حالیہ آڈیو لیکس میں کہیں میری غلطی ثابت ہوجائے

تو میں قوم سے مافی مانگ لوں گا۔امریکا میں ہوٹل کے اخراجات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں تین مرتبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب ہوا اور اب مخلوط حکومت کا سربراہ ہوں تو وزیراعلیٰ سے لے کر آج تک میں نے جتنے بھی سرکاری بیرونی دورے کیے اس کے اخراجات ہمیشہ اپنے جیب سے ادا کیے اور اکثر دیگر ساتھی بھی اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، یہ نئی بات یا احسان نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ جب آپ کے وسائل ہیں اور ملک کے وزیراعظم ہیں تو پھر قوم کے پیسے کیوں خرچ کریں اور 25 برسوں میں یہ میری پریکٹس ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ڈونرز کانفرنس کے حوالے سے سوال پر

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں زعما نے ڈونر کانفرنس اور تعاون کی بات کی ہے اور ہم اس پر فعال کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کون سا مناسب وقت ہوگا، اس کی تیاری پوری ہونی چاہیے، اس کے لیے پوری تیاری کی جارہی ہے، ہمارے وزیرخارجہ اور احسن اقبال پوری تیاری کر رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اس میں تاخیر نہیں کریں گے اور پوری تیاری سے اس کام کو کریں گے، اس کے لیے فرانس کے صدر نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ سیلاب کے آنے میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں، کاربن کے اخراج میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سائیڈ لائن اجلاس پر

روسی صدر سے ملاقات پر شہباز شریف نے کہا کہ اگر صدر پیوٹن حکومت کو امپورٹڈ سمجھتے تو وہ مجھ سے کیوں ملاقات کرتے، انہوں نے ملاقات میں حکومت پر اعتماد کا اظہار اور دو طرفہ تعلقات بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا۔سائفر کی تحقیقات کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ روسی صدر کی ملاقات کے بعد مجھ سے ہونے والی ملاقات کے بعد غیرملکی مراسلے کی تحقیقات کی ضرورت رہتی ہے؟۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے سوال کیا کہ عمران خان نے جب موجودہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی تو مجھ سے مشاورت کی تھی؟ ہم یہ تقرری آئین و قانون کے مطابق کریں گے۔اسحاق ڈار کی واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے

سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ’مفتاح اسماعیل نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا اور اب انہوں نے آرام کرنے کی اجازت مانگی تھی، جس پر ہم نے انہیں اجازت دی اور مستقبل میں اْن سے مزید کام لیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ اسحاق ڈار کا معیشت کے حوالے سے بہت اچھا تجربہ ہے اور محنت کرنے والے آدمی ہے، اْن کے بعد چیزیں بہتر ہونے کی امید ہے۔ سائفر کے حوالے سے سپریم کورٹ اور نیشنل سیکیورٹی کونسل میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کسی سیاست دان نے کسی بھی غیرملکی ایجنسی کے ساتھ مل کر کوئی کام نہیں کیا اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت سامنے آیا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں