اسلام آباد (پی این آئی ) عدالت عظمیٰ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدہ پر انتخاب کے دوران مسلم لیگ ق کے دس اراکین اسمبلی کے ووٹ مسترد کرنے کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کی رولنگ کیخلاف درخواست کی سماعت کے دوران فریقین کے وکلاء نے دلائل دیئے۔ رونامہ جنگ میں شائع رانا مسعود حسین کی رپورٹ کے مطابق چوہدری شجاعت کے وکیل صلاح الدین نے دلائل کے دوران کہا کہ سارا معاملہ 63اے کی تشریح کے عدالتی فیصلے کے گرد گھومتا ہے، اس لیے اس سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر سماعت تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔پنجاب کی حکمرانی کی قبا ء ماڈل ٹائون کے شریفوں کے سر پر رکھنے
یا گجرات کے چوہدریوں کے سر پر رکھنے سے آسمان نہیں گرے گا لیکن اگر ایک دفعہ عوام میں یہ تاثر جڑ پکڑ گیا کہ اس عدالت کے تمام اہم مقدمات کا فیصلہ چند جج کرتے ہیں تو آسمان گر جائے گا۔ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادرنے کہا کہ جانبداری کا تاثر نہیں جانا چاہیے ،اگر جانبدای کا شائبہ بھی ہو تو بینچ کو وہ دور کرنا چاہیے۔ حمزہ شہباز کے وکیل منصور عثمان نے کہا کہ اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترمیم سے متعلق مقدمے میں سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے قرار دیا ہے کہ
ملک کے معروضی سیاسی ماحول کے باعث پارٹی سربراہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،پارٹی معاملات میں سر براہ کا کردار کلیدی ہے۔ 63اے کی تشریح کے مقدمے کے فیصلے میں تین ججوں نے آٹھ ججوں کی آبزرویشن کو نظر انداز کیا ہے۔ درخواست گزار پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ بارکی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ میں بھی سابق صدر ہوں ،وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں،مسول علیان نے درخواست میں ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا ، پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ ہم نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواستیں دائر کی ہیں،
جس پر چیف جسٹس نے ازراہ تفنن فاروق ایچ نائیک کوکہا کہ آپ بیٹھیں، امید ہے آپ کی نشست ابھی بھی خالی ہو گی، جس پر انہوں نے کہا کہ سیٹ تو آنی جانی چیز ہے، سیٹ کا کیا مسئلہ ہے؟جس پر کمرہ عدالت میں قہقہہ بلند ہوا،فاضل وکیل نے کہاکہ صبح درخواست جمع کروائی تھی اسے بھی سنا جائے،ڈپٹی سپیکرکے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آئے اور فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تو عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کن نقاط پر فل کور ٹ اس کیس کی سماعت کرے؟ فاضل وکیل نے کہا کہ آئین کی دفعہ 63 اے کے حوالے سے آپ اپنے حکم نامے کا پیرا گراف نمبر 1 اور 2 پڑھ لیں جس سے ساری باتیں واضح ہوجائیں گی،
فاضل وکیل نے کہا کہ صدر مملکت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے یہاں پر ریفرنس بھیجا تھا، آرٹیکل 63 اے کو الگ کر کے نہیں پڑھا جاسکتا ، سیاسی جماعت کو پارٹی سربراہ ہی ہدایات جاری کرتا ہے، پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے،انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے سارا جمہوری نظام ہی خطرے میں پڑسکتا ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف نظام کیلئے کینسر کے مترادف ہے
،فاضل وکیل نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے، فاضل وکیل نے کہا کہ یہ ایک اہم آئینی معاملہ ہے، تمام ابہام دور کرنے کیلئے فل کورٹ بنانے کا یہ صحیح وقت ہ پہلا فیصلہ جاری کرنے والے جج ہی اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے میرے موکل میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں