اسٹیبلشمنٹ جس شدید دباؤ کا شکار ہے کوئی اندازہ نہیں کر سکتا، امریکا عمران خان سے کیوں ناخوش تھا؟ سینئر صحافی ہارون الرشید کے انکشافات

لاہور(پی این آئی ) سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ بڑی خبر یہ ہے کہ امریکا کی طرف سے پہل پر پاکستان اور امریکا کے درمیان مذاکرات شروع ہونے والے ہیں۔یہ خواہش دونوں طرف سے پائی جاتی تھی۔عمران خان سے تو امریکی بہت ناخوش تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فائنلی پاکستان اور انڈیا کے مذاکرات شروع ہونے والے ہیں۔

 

یہ اصولی بات ہے جس دن اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے تو اس دن راولپنڈی یا واشنگٹن کی طرف سے دیکھیں گے،عمران خان نے لانگ مارچ کینسل کر دیا، اعلان کرتا تو حبس کی وجہ سے بالکل فلاپ ہو جاتا۔ہارون الرشید نے مزید کہا کہ دو چیزں ڈائیلاگ اور الیکشن لازمی ہو گا۔بھٹو کے بعد جو بھی آیا جس نے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کی تو وہ گیا۔پہلے اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی دفاع اور خارجہ امور میں ان کی بات سنی جائے، اب تو وہ اکانومی پر بھی کہتے ہیں ، وقت آ گیا ہے اس پر کھل کر گفتگو کی جائے۔17 جولائی بہت اہم ہے، ن لیگ کو آپ دھاندلی سے نہیں روک سکتے۔اگر اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پناہی نہ کرے،بڑے فریق عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ہیں، پہلے ان کے درمیان بات ہو۔اس بات کا آغاز 18 جولائی کو ہو جائے گا اگر فری ائینڈ فئیر الیکشن ہو گئے۔کچھ رعایت تو خان صاحب کو دینی ہو گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ جس شدید دباؤ کا شکار ہے کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔

 

فوج کو سویلین اداروں کی مضبوطی کے لیے مدد کرنا ہو گی۔قبل ازیں انہوں نے کہا کہ عمران خان جلسوں سے بہتر بھی حکمت عملی عملی اپنا سکتے ہیں لیکن ان کے اردگرد ایسے لوگ جمع ہوجاتے ہیں جو غلط مشورہ دیتے ہیں۔ پرنسپل سیکرٹری کا انتخاب بھی غلط تھا،عمران خان تو کہہ رہے تھے انہیں یقین ہی نہیں تھا کہ شہباز شریف وزیراعظم بن سکتے ہیں۔عمران خان کو حلقوں میں اپنے کارکنوں کو حلقوں میں متحرک کرنا چاہیے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں