پی ٹی وی کا معاشی قتل،تحریک انصاف حکومت نے کیسے غیر قانونی طور پر ایک میڈیا گروپ کو فائدہ پہنچانے کیلئے سرکاری ٹی وی کو نقصان پہنچایا؟ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری

سابق حکومت نے اقتدار میں آ کر پی ٹی وی کا معاشی قتل کیا، سوچی سمجھی سازش کے تحت پی ٹی وی کے حقوق غیر قانونی طور پر کسی دوسرے چینل کو دیئے گئے، جب ’’اے سپورٹس‘‘کو کرکٹ دکھانے کے حقوق دیئے گئے تو اس وقت اس کے پاس لائسنس ہی نہیں تھا،

غیر قانونی ڈیل کے نتیجے میں پی ٹی وی کو اب تک 52 کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے، پی ٹی وی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے نتائج آج پی ٹی وی بھگت رہا ہے، پی ٹی وی سپورٹس واحد سکرین ہے جس سے پی ٹی وی ریونیو حاصل کرتا ہے تاہم پی ٹی آئی کے دور میں اس ریونیو کو خسارے میں تبدیل کیا گیا،اپریل 2022 ء میں نئی آنے والی اتحادی حکومت نے پی ٹی وی سپورٹس کے کرکٹ رائٹس کیلئے گروپ ایم اور اے آر وائے کے ساتھ معاہدے بارے اپریل 2022ء میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی جس کی دو ماہ تک تحقیقات جاری رہیں۔فائنڈنگ کمیٹی نے مختلف سوالات تیار کئے کہ پی ٹی وی اسپورٹس ایکسپریشن آف انٹرسٹ (EOI) کب شائع ہوا؟ کتنی پارٹیوں نے اس میں دلچسپی کا اظہار کیا، کن کو شارٹ لسٹ کیا گیا؟ جس پارٹی کو آئی سی سی کرکٹ رائٹس کے معاہدے سے نوازا گیا تھا اسے منتخب کرنے کے لیے کیا معیار مقرر کیا گیا تھا؟کیا پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرز کو آئی سی سی کرکٹ رائٹس کے لیے شارٹ لسٹ کی گئی پارٹیوں کی جانب سے مالیاتی کام اور ویلیو ایڈیشنز پیش کیے گئے؟ کیا اے آر وائی کنسورشیم نے پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے مطابق پی ٹی وی اسپورٹس کے ساتھ اپنے مالی وعدوں کا احترام کیا ہے اس کے علاوہ کہا گیا کہ براہ کرم ICC ورلڈ کپ T20 اور پی ایس ایل سیون کے لیے سیلز ریونیو اور لاگت کے مفاہمت کے بیانات فراہم کریں۔سوال اٹھایا گیا کہ

کیا اے آر وائی کنسورشیم اور پی ٹی وی اسپورٹس کے ساتھ کیا گیا معاہدہ پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی طرف سے دی گئی منظوری کے مطابق تھا؟ اے آر وائی کنسورشیم کے ساتھ معاہدے کی شق 3.10 اور 3.11 میں 250 سے 300 ملین اور ٹائم لائنز پورے ہو گئے؟ شق 3.12 کے حوالے سے کیا پی ٹی وی بورڈ کی منظوری کے لیے پی ٹی وی کے ساتھ بعد میں طے شدہ معاہدے کے ذریعے سرمایہ کاری کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی؟ براہ

کرم اس سلسلے میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری منسلک کریں۔پی ٹی وی کے ساتھ پی ایس ایل 7 اور پی ایس ایل 8 کی مشترکہ بولی لگانے کے لیے کتنی پارٹیوں کو مدعو کیا گیا یا کتنی پارٹیوں نے اس میں حصہ لیا؟سوال کیا گیا کہ 2020-2023 کے درمیان آئی سی سی ایونٹس کے لیے پی ٹی وی اور اے آر وائی کنسورشیم کے لیے ریونیو اور لاگت کی تقسیم کا تناسب کیا تھا؟پی ایس ایل 7 اور پی ایس ایل8 میں لاگت اور ریونیو شیئرنگ ریشوز

کو ARY کے حق میں تبدیل کرنے سے پی ٹی وی پر کیا مالی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ بولی لگانے والی پارٹی اے آر وائی کو پی ایس ایل7 اور پی ایس ایل8 کے لیے PTV کے ساتھ مشترکہ طور پر بولی لگانے کا فیصلہ کیسے کیا گیا؟ کیا اس سلسلے میں کوئی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے منظوری ہے،پی ٹی وی نے گروپ M کو چھوڑ کر ARY کا انتخاب کیا؟ کیا گروپ M کو خارج کرنے کے اس اقدام کے حوالے سے پی ٹی وی بورڈز آف

ڈائریکٹرز کو مطلع کیا تھا اور اس کی منظوری دی گئی تھی؟ اگر اس بولی کے لیے پارٹی کی تبدیلی تھی تو دوسری جماعتوں کو کیوں مدعو نہیں کیا گیا؟ کیا PTV اور ARY کنسورشیم کے درمیان معاہدے کی شق 3.4 کو پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری حاصل تھی؟ کیا دیگر پارٹیوں نے پی ٹی وی اسپورٹس سے پی ٹی وی کے ساتھ مشترکہ طور پر پی ایس ایل 7 اور پی ایس ایل 8 کی بولی لگانے کے لیے رابطہ کیا؟ کیا پی ٹی وی اسپورٹس

پی ایس ایل 7 اور پی ایس ایل 8 کے حوالے سے اے آر وائی کے علاوہ کسی تیسرے فریق کے ساتھ مذاکرات یا تجویز طلب کرنے یا اس پر بات کرنے میں کسی بھی طریقے سے مصروف رہا؟ اگر ایسا ہے تو اس مصروفیت کا نتیجہ کیا نکلا، اس سلسلے میں متعلقہ فریق کے ساتھ خط و کتابت، ای میل، وٹس ایپ چیٹ کا آخری تبادلہ منسلک کیا جائے۔ اہم سوال اٹھایا گیا کہ پی ایس ایل7 اور پی ایس ایل8 کی بولی لگانے کے لیے ARY کو مرکزی کردار کیوں

دیا گیا؟ کیا اے آر وائی کی جانب سے بولی لگانے کے لیے اے آر وائی کو لیڈ رول دینے کے لیے پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری لی گئی تھی؟ کیا اے آر وائی اور پی ٹی وی کے ساتھ بولی سے پہلے کا کوئی معاہدہ ہے اور کیا اس سے پہلے بولی کے معاہدے کو پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اے آر وائی کے ساتھ مشترکہ بولی لگانے کے لیے پیشگی منظوری دی ہے؟ اگر ایسا ہے تو براہ کرم بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے بولی سے پہلے

کی منظوری منسلک کریں۔پی ایس ایل7 اور پی ایس ایل8 کے لیے ARY کو بولی کی رقم کی حد کیا تھی؟ بولی کی اس حد کو کس نے اختیار کیا؟ بولی کی رقم کے لیے کوئی ورکنگ پیپر بنایا گیا؟ کیا پی ٹی وی کے کسی نمائندے/ اہلکار نے بولی کے عمل میں حصہ لیا؟ براہ کرم پی ٹی وی کے اس اہلکار کا نام اور عہدہ بتائیں جو بولی لگانے کے وقت پی سی بی میں موجود تھا اس کے بیان کے ساتھ جسے پی ٹی وی نے اسے بولی میں حصہ لینے کے لیے بریف

کیا تھا۔ کیا بولی کی رقم پی سی بی میں بولی گئی تھی، کیا پی ٹی وی مینجمنٹ کی تحریری منظوری اور پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری تھی؟ کیا پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرزکی 2021 میں آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو نشر کرنے کے لیے تیسرے چینل کے طور پر سپورٹس اے کو شامل کرنے کی کوئی منظوری ہے، جس نے ٹین سپورٹس کے علاوہ سپورٹس اے کو نشریاتی حقوق دینے کا اختیار دیا؟ کیا پی ٹی وی بورڈ کو اطلاع دی گئی

تھی اور پی ٹی وی کی جانب سے ”اے سپورٹس” کے براڈکاسٹنگ رائٹس کے سبلیٹ کے لیے منظوری لی گئی تھی؟ رسک مینجمنٹ کمیٹی کے اجلاس اور پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرزمنٹس میں اس ”اسپورٹس” چینل کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ تیسرا چینل یعنی ”اسپورٹس” کو سبلیٹ/ایڈ کرنے کے لیے مالی تحفظات اور فوائد کیا تھے؟کہا گیا کہ براہ کرم پی ایس ایل7 کو نشر کرنے کے لیے ٹین سپورٹس کو تیسرے چینل کے طور پر شامل کرنے اور

سبلیٹ کرنے کے لیے ورکنگ پیپر کے ساتھ پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری فراہم کریں۔پی ایس ایل7 دکھانے کے لیے ٹین سپورٹس کے ساتھ کیا انتظام تھا؟ اس سلسلے میں دیے گئے مالیاتی اثرات، اضافی محصولات کی تقسیم، پی ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے ساتھ ورکنگ پیپر منسلک کیا جائے۔دوسری جانب فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ معاملہ مزید تحقیقات اور ذمہ

داری کا تعین کرنے کے لیے ایف آئی اے کو بھیجا جائے۔ کمیٹی کو پتا چلا کہ پی ٹی وی انتظامیہ کی جانب سے ایک میڈیا گروپ کو سپورٹس چینل بنانے کے لیے غیر ضروری مدد اور سہولت فراہم کی گئی تو پی ٹی وی انتظامیہ نے کرکٹ کے نشریاتی حقوق سے نوازا۔کہا گیا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے وقت سپورٹس اے کا وجود نہیں تھا ، یہ حقیقت پی ٹی وی بورڈ سے چھپائی گئی۔ ایک سپورٹس چینل کو PTV بورڈ کی منظوری لیے بغیر آئی سی سی ٹی

ٹوئنٹی ورلڈ کپ نشر کرنے کے حقوق سے نوازا گیا۔ پی ٹی وی بورڈ کی منظوری کے بغیر پی ٹی وی انتظامیہ کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی آئی سی سی ورلڈ کپ اور پی ایس ایل کے لیے اے اسپورٹس کو دیے گئے غیر مجاز نشریاتی حقوق کی وجہ سے پی ٹی وی کو اربوں روپے کی آمدنی کا نقصان ہوا، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ اے آر وائی اور پی ٹی وی کے درمیان معاہدہ ہدایات کے مطابق نہیں تھا اور بعد میں اے آر وائی کے حق میں کئی شقیں

شامل کی گئیں جو کہ پی ٹی وی بورڈ کے ایم ڈی کی طرف سے دی گئی منظوری کے دائرہ کار سے باہر تھیں اور پی پی آر اے اور پبلک پرائیویٹ کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ تاہم بورڈ نے پی ٹی وی انتظامیہ کو پروکیورمنٹ رولز پر عمل کرنے کی سختی سے ہدایت کی۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ PSL کے لیے PTV/ARY معاہدے کے نتیجے میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بعد ہونے والے تغیرات کی وجہ سے پی ٹی وی کو نقصان ہوا،

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایویلیویشن کمیٹی اچھی طرح سے واقف نہیں تھی یا اس کے پاس PPRA کے قواعد یا معاہدے کو منتخب کرنے اور دینے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو کنٹرول کرنے والے قواعد کا ماضی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ابتدائی طور پر بولی جیتنے والے کامیاب بولی دہندہ کو بعد کے مذاکرات میں تبدیل کر دیا گیا جو کہ PPRA قوانین کی خلاف ورزی تھی۔تفتیش کے دوران اہلکار کمیٹی کو تصدیق کرتا ہے کہ

انہوں نے ماضی میں اس سے پہلے کبھی خریداری کے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا تھا۔ سابق ایم ڈی پی ٹی وی جناب عامر منظور کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے حالانکہ انہیں وضاحت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔کمیٹی کے مطابق ابتدائی انکوائری کے نتائج کے بعد ڈائریکٹر اسپورٹس کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی نے کہا کہ کامیاب بولی دہندہ کی تبدیلی اور میڈیا گروپ کو نشریاتی حقوق کا ایوارڈ بغیر کسی ٹھوس وجوہات کے

کیا گیا۔ دوسری جانب اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اپریل 2022ء میں جب ہماری حکومت آئی تو معلوم ہوا کہ پی ٹی وی سپورٹس کے کرکٹ رائٹس کیلئے گروپ ایم اور اے آر وائے کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے، اس پر ہم نے اپریل 2022ء میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی جس کی دو ماہ تک تحقیقات جاری رہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس آسان راستہ تھا کہ پہلے روز ہی فوری طور پر اس موضوع پر پریس ٹاک کرکے

الزام عائد کر دیا جاتا اور ان لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر بھول جاتے۔ انہوں نے کہا کہ سابق دور میں پی ٹی وی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے نتائج آج پی ٹی وی بھگت رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی اور ایم گروپ، اے آر وائے کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت پی ٹی وی سپورٹس نے کرکٹ رائٹس کو ایکوائر کر کے وہ رائٹس اے آر وائے کو دینے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 16 ستمبر 2021ء تک یہ رائٹس پی ٹی وی سپورٹس چینل کے پاس

تھے، پی ٹی وی سپورٹس اسی ذریعے سے ریونیو حاصل کرتا ہے اور عوام کو کرکٹ دکھاتا ہے، 16 ستمبر 2021ء کو معاہدے پر دستخط کر کے ان حقوق پر سمجھوتہ کیا گیا، اس معاہدے کے ذریعے پی ٹی وی سپورٹس کے کرکٹ رائٹس پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی وی کے کرکٹ رائٹس کسی دوسرے چینل کو دینے کا باقاعدہ منصوبہ تیار کیا گیا۔ پی ٹی وی سپورٹس نے کہا کہ ہمارے پاس رائٹس ایکوائر کرنے کے لئے

پیسے نہیں ہیں، ہمیں اس منصوبے میں اظہار دلچسپی طلب کرنا چاہئے، پی ٹی وی کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اس کام کے لئے پیسے نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی وہ ادارہ ہے جس کا 100 فیصد شیئر حکومت پاکستان اون کرتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سابق دور میں پی ٹی وی سپورٹس کو تباہ کیا گیا۔ سابق حکومت پی ٹی وی کو نیلام کرنے جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اظہار دلچسپی کیلئے اشتہار ایک اخبار میں 10

اگست 2021ء کو شائع ہوا، اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے حوالے سے چیزیں شامل کی گئیں، تین دن کے بعد انہیں خیال آیا کہ اظہار دلچسپی کے اس منصوبہ پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوگا تو اس کے ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لئے بڈز طلب کی گئیں۔ تین دن کے بعد 13 اگست کو منگوائی گئی بڈز کو ریوائز کرنے کے لئے addendum شائع کیا گیا، اس کے اندر بولیاں وصول کرنے کی تاریخ کو 27 اگست کر دیا گیا، ایک

addendum میں کہا گیا کہ ہمیں سیٹلائٹ سپیشلائزڈ سپورٹس براڈ کاسٹر چاہئے، اس کے اندر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی ٹی وی سپورٹس کو ایس ڈی سے ایچ ڈی کرنے کے لئے انفراسٹرکچرل معاونت بھی چاہئے۔ ایک ترمیم میں کہا جاتا ہے کہ کیبل اور سیٹلائٹ براڈ کاسٹر کی ضرورت ہے کیونکہ ٹین سپورٹس اور آئی سی سی رائٹس کے لئے پری ریکوزیشن کے وقت اظہار دلچسپی کے نوٹس میں بڈز منگواتے وقت یہ شرط نہیں ڈالی گئی تھی۔ بعد ازاں

ٹرمز آف ریفرنسز جاری کئے گئے جو اظہار دلچسپی کے نوٹس سے مختلف تھے، 27 اگست کو بڈز آئیں، 28 اگست 2021ء کو یہ بولیاں کھول دی گئیں، چار کمپنیوں گروپ ایم۔ اے آر وائے، بلٹز ایڈورٹائزر، ٹاور سپورٹس اور ٹریڈ کرونیکل کی بولیاں موصول ہوئیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لئے ان چاروں کمپنیوں کی بولیوں کی مارکنگ کی گئی، ٹریڈ کرونیکل کو ٹیکنیکل بنیادوں پر ڈس کوالیفائی کردیا گیا، اس کے بعد تین کمپنیاں گروپ ایم۔

اے آر وائی، بلٹز اور ٹاور سپورٹس رہ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اظہار دلچسپی کے نوٹس کو ہر اسٹیج پر بدلا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ 28 اگست 2021ء کو جائزہ کمیٹی نے مارکنگ کی جس میں بلٹز ایڈورٹائزرز کو 300 میں سے 182 پوائنٹس، گروپ ایم۔ اے آر وائے کو 167 پوائنٹس اور ٹاور سپورٹس کو 131 پوائنٹس دیئے گئے، جائزہ کمیٹی نے مارکنگ پر دستخط کئے اور لیٹر جاری کئے، اس لیٹر پر ڈائریکٹر سپورٹس، ڈائریکٹر فنانس، ڈائریکٹر

انجینئرنگ، چیف کمرشل آفیسر اور ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ پرسانل کے دستخط موجود تھے۔ خط میں کہا گیا کہ بلٹز ایڈورٹائزر نے سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کئے ہیں اور ایک بہتر پارٹنر شپ ڈیل دی ہے تاہم کمپنی کے ساتھ معاہدے سے پہلے کچھ چیزیں طے کی جائیں گی، اس کے بعد 28 اگست کو ہی ایم ڈی پی ٹی وی کو ایک نوٹ جاتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ کمیٹی کہہ رہی ہے کہ ہم نے ان دونوں کمپنیوں کو منتخب کیا ہے، ہم ان کے ساتھ مزید

بات چیت میں جانا چاہتے ہیں جبکہ کمیٹی نے ایسا نہیں کہا تھا، کمیٹی نے بلٹز ایڈورٹائز کو زیادہ نمبروں سے منتخب ہونے کا لیٹر جاری کیا تھا۔ بلٹز ایڈورٹائزر پہلے بھی ایک منصوبے میں پی ٹی وی کے ساتھ اشتراک کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکم ستمبر 2021ء کو دوبارہ بات چیت کا آغاز کیا گیا جس میں ناکام کمپنی کو کامیاب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، اس میں نمبر بدلے گئے، ٹرمز بدلی گئیں، ری مارکنگ کی گئی، اپنی من پسند کمپنی کو

کامیاب کرنے کے لئے کہا گیا کہ اس پر پیپرا رولز لاگو نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے منتخب کمپنی کے ساتھ بات چیت کرنے کا کہا لیکن ری مارکنگ کر کے من پسند کمپنی کو منتخب کیا گیا، اپنی من پسند کمپنی کو اضافی نمبر دینے کے لئے ری مارکنگ میں مجموعی نمبروں کو بڑھا کر 350 کر دیا گیا، بولی میں کامیاب کمپنی کو چھوڑ کر من پسند کمپنی کو نوازا گیا، دوبارہ بات چیت میں بلٹز ایڈورٹائزر کے لئے الگ معیار اور ایم گروپ

 

 

 

 

کے لئے الگ معیار مقرر کیا گیا، 6 ستمبر کو مارکنگ کے مجموعی نمبروں میں 50 نمبر بڑھا دیئے گئے اور سیٹلائٹ براڈ کاسٹر ہونا سب سے زیادہ ضروری معیار مقرر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اے آر وائی کو پہلے 300 میں سے 167 نمبر دیئے گئے تھے، اس کے بعد اسی جائزہ کمیٹی نے 350 نمبروں میں سے 250 نمبر دے دیئے، بلٹز ایڈورٹائزر کے بارے میں کمیٹی نے کہا کہ یہ بہتر ڈیل ہے اور زیادہ نمبر لئے ہیں اس کو اسی کمیٹی نے

350 میں سے 185.6 نمبر دیئے، اس طرح ناکام ہونے والی کمپنی اے آر وائے کے لئے مجموعی نمبروں میں 50 نمبروں کا اضافہ کیا گیا اور ان 50 نمبروں میں سے اے آر وائے کو 83 نمبر دے دیئے گئے جبکہ کامیاب کمپنی بلٹز ایڈورٹائزر کے صرف 3.6 نمبر بڑھائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ دوبارہ بات چیت میں تیسری کمپنی ٹاور سپورٹس سے کسی نے بات چیت تک نہیں کی، ٹاور سپورٹس مسنگ کمپنی بن گئی، دوبارہ مارکنگ میں اس کمپنی

کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ 6 ستمبر کو فیصلہ کیا گیا کہ ایم گروپ اے آر وائے کے ساتھ تین سال کا معاہدہ کرنا ہے، 10 اگست کو اظہار دلچسپی کا نوٹس شائع ہوا اس کے معیارات میں سیٹلائٹ براڈ کاسٹر کی شرط ڈالی جاتی ہے، اس پورے پراسیس کے بعد 16 ستمبر کو اس معاہدے پر دستخط ہوتا ہے، اس معاہدے سے دو دن پہلے 14 ستمبر کو پیمرا اے سپورٹس کو لائسنس جاری کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 14 ستمبر تک اے سپورٹس کے پاس براڈ کاسٹنگ

لائسنس نہیں تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ من پسند کمپنی کے لئے منصوبہ تیار کیا گیا، پیپر تیار کئے گئے، اس کو کامیاب کرنے کے لئے 50 میں سے 83 نمبر دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اظہار دلچسپی کے نوٹس میں شرط تھی کہ سیٹلائٹ براڈ کاسٹر ہونا چاہئے، پیمرا میں دو مہینے کی ٹیسٹ ٹرانسمیشن لازمی ہوتی ہے لیکن اے سپورٹس کو دو دن کے بعد لائسنس جاری کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت اے آر

وائے کو پی ٹی وی کا مد مقابل چینل بنایا گیا، 14 ستمبر کو پیمرا سے اسے لائسنس جاری کروایا گیا اور اس کے بعد 16 ستمبر کو معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے یہ کہا گیا کہ ایم گروپ پی ٹی وی کا انفراسٹرکچر ٹھیک کرے گا جس پر ایم گروپ نے صاف کہہ دیا کہ ہمارے پاس کوئی مہارت نہیں ہے، ہم یہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی سپورٹس کو ایچ ڈی کرنے کے لئے بولیاں طلب کی گئیں جس کے لئے تین

کمپنیوں کی بولیاں موصول ہوئیں، ان تینوں کمپنیوں کو نظر انداز کر کے انفنٹی نامی کمپنی کو نامزد کر دیا گیا کہ یہ ایم گروپ اور اے آر وائے کو آلات دے گی، وہ اس سے آلات خرید کر پی ٹی وی کو دے گا جبکہ انفنٹی کمپنی بولی کے پراسیس میں شامل ہی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی نے 49 آئٹمز پر مبنی لسٹ بھیجی کہ ہمیں ایچ ڈی پر جانے کے لئے یہ آلات درکار ہوں گے جس پر کمپنی نے 19 آئٹمز فراہم کرنے کا کہا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی

 

 

 

 

آلات آئے وہ کرائے کے تھے، کرائے کے کیمرے لگائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کرائے کے کیمروں پر انفراسٹرکچرل اپ گریڈیشن آج تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو آلات فراہم کئے گئے وہ جعلی ہیں، ان کو پی ٹی وی نے آفیشل طور پر وصول ہی نہیں کیا کیونکہ وہ اس لسٹ کے مطابق نہیں جو پی ٹی وی کی انجینئرنگ کمیٹی نے فراہم کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 2021ء سے 2023ء تک کرکٹ کے ایونٹس، سپورٹس ایونٹس، انٹرنیشنل

ایونٹس کے تمام رائٹس گروپ ایم اور اے آر وائے کو بغیر مانگے دیئے گئے جو کبھی اظہار دلچسپی کا حصہ بھی نہیں تھے اور نہ ہی کبھی انہوں نے مانگے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایونٹ میں پی ٹی وی کو اس وقت تک 52 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی وی کی ریونیو جنریشن تقریباً دو ارب روپے متوقع تھی لیکن چار سال کا کنٹریکٹ من پسند کمپنی کے ساتھ کر کے اسے نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے کہا

کہ ایف آئی اے کی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں، جو ریکارڈ جمع کروایا تھا اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے، ان تمام لوگوں کی انکوائری شروع ہو چکی ہے جو اس پراسیس میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، جرم کے مطابق سزا ملے گی۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عدالت میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور فراہم کئے گئے ثبوتوں پر سماعت جاری ہے، یہ ایک غیر قانونی ڈیل ہے، اس کے قانونی ہونے کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈیل قومی مفاد پر سمجھوتہ کرتے ہوئے قومی ادارے کو نقصان پہنچا کر دی گئی۔ اس کو ختم کرنے کا اختیار ہے۔ میں اس ادارے کی وزیر ہونے کے ناطے اس کو ختم کرنے کا حق رکھتی ہوں۔ انشاء اللہ پی ٹی وی کو یہ حقوق واپس دلوائے جائیں گے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں